تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے۔ اچانک میرے والد گرامی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا:”جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے، وہ ابوبکر کو دیکھ لے”۔(المعجم الاوسط، من اسم? ال?ثم، الرقم: 9384) حضرت ابن ِ عمر سے مروی ہے کہ رسول ِ رحمت ۖ نے فرمایا ”یعنی جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو کہ وہ میرے صحابہ کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں تو ان سے کہہ دو’تمہاری اس حرکت پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ”حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول ِ رحمت ۖ نے فر ما یا ”میرے صحابہ کرام کی مثال میری اُمت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا بغیر نمک کے درست نہیں ہو تا ”حضرت جبیر بن مطعم فر ماتے ہیں کہ رسول ِ رحمت ۖ کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی تو آپ ۖنے اس سے فر مایا کہ پھر آنا اس خاتون نے عرض کیا اگر میں پھر آئوں اور آپ ۖکو نہ پائوں تو کیا کروں؟ اس کی مراد شاید وفات سے تھی تو آپ ۖ نے فر مایا ”اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر کے پاس آجانا ”(بخاری شریف ج 2ص 378)بخاری شریف کے علاوہ اس حدیث کو مشکواة، ترمذی، تاریخ الخلفاء نے بھی نقل کیا ہے اور اس حدیث کے تحت فر ماتے ہیں کہ اس سے ابو بکر صدیق کی خلافت کا اول ہو نا ثابت ہے۔
ابنِ عساکر نے حضرت ابنِ عباس کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک خاتون رسول ِ رحمت ۖ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں جو آپ ۖ سے کچھ دریافت کر نا چاہتی تھیں آپ ۖ نے ان سے کہا کہ پھر آنا انہوں نے کہا کہ اگر میں آئوں اور آپ ۖ کو نہ پا ئوں اور آپۖ کا وصال ہو چکا ہو تب آپۖ نے فر مایا ”اگر تم آئو اور مجھ کو نہ پا ئو تو ابو بکر کے پاس آنا میرے بعد وہی خلیفہ ہوں گے (تاریخ الخلفائ، ص 124صواعق محرقہ ص85) امام مسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کیا ہے کہ حضور ۖ نے اپنی علالت کے دوران فر مایا کہ ”یعنی تم اپنے والد اور بھائی کو بلالو تا کہ میں کچھ انہیں لکھ کر دے دوں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ میرے بعد کو ئی تمنا کر نے والا تمنا کرے یا کہنے والا کہے کہ میں (خلافت کا مستحق ہوں) پھر فر مایا کہ رہنے دو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور مومنین حضرت ابو بکر کے علاوہ کسی سے راضی نہیں ہوں گے۔
جناب ِ محمد ۖنے فر مایا ہے ”قسم خدا کی پیغمبروں اور رسولوں کے بعد ابو بکر سے کسی اور افضل شخص پر آفتاب طلوع اور غروب نہیں ہوا ”نیز رسول رحمت ۖ نے فر مایا ہے کہ ”میں ابو بکر کو تم سب سے جو بہتر جانتا ہوں وہ ان کے نماز روزہ کے سبب نہیں ہے بلکہ اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے سینے میں ہے یعنی یقین ”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں 181احادیث مروی ہیں 88احادیث ایسی ہیں جن میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر کی فضیلت کا بیان ہے 17احادیث ایسی ہیں جن میں مجموعی طور پر خلفائے ثلاثہ کے فضائل ہیں 14احادیث میں خلفاء اربعہ کے فضائل مجموعی طور پر مذکور ہیں 16احادیث میں خلفاء اربعہ کے ساتھ اور صحابہ کرام بھی شریک فضائل ہیں اسی طرح (188171416316)تین سو سولہ احادیث حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں روایت کی گئی ہیں یہ تعداد تو ان احادیث کی ہے جو مخصوص نام کے ساتھ ہیں جن ہزاروں احادیث میں مہاجرین، مومنین وغیرہ اہل ایمان و صلحاء کے فضائل مذکور ہیں وہ بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں صادق آتی ہیں۔
حضرت عمر بن عبد اللہ فر ماتے ہیں کہ نبی کریم ? کے زمانے میں ہم ابو بکر کے برابرکسی کو نہیں جانتے تھے پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو! (مشکوة باب ابو بکر الصواعق المحرقہ ص68)صحیح مسلم میں ہے رسول رحمتۖنے ارشاد فر مایا کہ ”وہ کون شخص ہے جس نے آج روزہ رکھ کر صبح کی ہو؟ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے، آپ ۖ نے فر مایا وہ کون ہے جو آج جنازہ کے ساتھ گیا ہو؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا حضور ۖ میں! آپۖ نے فر مایا!وہ کون ہے جس نے آج مسکین کو کھا نا کھلا کر تسکین دی ہو؟ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میں نے!رسول رحمت ۖ نے ارشاد فر مایا، وہ کون آدمی ہے جس نے آج کسی بیمار کی خبر گیری کی ہو؟ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، میں نے!رسول رحمتۖ نے فرمایا، یہ کام اُسی آدمی میں جمع ہوتے ہیں جو جنت میں جائے گا۔
علماء فر ماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص بغیر حساب اور اعمال کی سزا پائے بغیر جنت میں جائے گا ورنہ صرف ایمان لانا ہی خداکے فضل سے جنت میں جانے کا تقاضہ کرتا ہے،ایک حدیث میں ہے جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے ”میری اُمت کا سب سے زیادہ مہر بان ابو بکر ہے اور جس شخص پر بھی میں نے اسلام کو پیش کیا وہ سر گرداں ہو گیا سوائے ابو بکر کے!(یعنی انہوں نے فوراََ اسلام قبول کر لیا)اس حدیث کو طبرانی نے اوسط میں اور ابن عساکر نے جابر اور حسن سے نقل کیا ہے۔
رسول اکرم نورِ مجسم ۖ فر ماتے ہیں ”قیامت کے دن سب لوگوں کو کھڑا رہنے کا حکم ہو گا سوائے ابو بکر کے ان کو اختیار ہو گا خواہ کھڑے رہیں یا وہ گزر جائیں اور یہ یقینی بات ہے کہ جب ان کو نامہ اعمال دیا جائے گا تو انہیں کہا جائے گا اگر چاہیں تو اسے پڑھیں نہ چاہیں تو نہ پڑھیں اور ان کے لیے ایک قبہ (گنبد نما محل) سُرخ یاقوت کا اعلیٰ علیین میں بنایا گیا ہے جس کے چار ہزار دروازے ہیں جب بھی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے مشتاق ہوں گے ان میں سے ایک دروازہ کھُل جائے گا تو آپ اللہ تعالی ٰ کا دیدار بے پردہ کریں گے رسول رحمت ۖیہ بھی فر ماتے ہیں کہ ایک دن جبرائیل امین سے میں نے دریافت کیا کہ کیا میری اُمت کا قیامت کے روز حساب ہو گا؟ حضرت جبرائیل نے جواب دیا ہاں حساب لیا جائے گا لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نہیں کیونکہ انہیں کہا جائے گا، اے ابو بکر صدیق جنت میں چلے جائو وہ کہیں گے میں نہیں جائوں گا جب تک دنیا میں مجھ سے محبت رکھنے والے میرے ساتھ جنت میں نہ جائیں، رب العزت جل شانہ کا فر مان ہوگا اے ابو بکر اپنے دوستوں کو بھی بہشت میں لے جائو کیو نکہ میں نے اس دن وعدہ کر لیا تھا جس دن تجھے دنیا میں پیدا کیا اور میں نے بہشت کو کہہ دیا تھا جو بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت رکھے گا وہ تیرے اندر ضرور داخل ہو گا امام شعبی رحمہ اللہ نے روایت کیاہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ا? تعالیٰ نے چار ایسی خصوصیات سے متصف فرمایا جن سے کسی اور کو سرفراز نہیں فرمایا۔
اول: آپ کا نام صدیق رکھا۔ دوم: آپ غار ثور میں محبوبِ خدا اکے ساتھی رہے۔ سوم: آپ ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفیقِ سفر رہے۔ چہارم: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی آپ کو صحابہ کی نمازوں کا امام بنا دیا۔ آپ کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ آپ کی چار نسلوں نے صحابی ہونے کا شرف پایا۔ آپ صحابی، آپ کے والد ابو قحافہ صحابی، آپ کے بیٹے عبدالرحمٰن صحابی اور انکے بیٹے ابو عتیق محمد بھی صحابی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین۔ (ماخوذ از تاریخ الخلفائ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تمام اہلِ زمین کا ایمان ایک پلّہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان دوسرے پلّہ میں رکھ کروزن کیا جائے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کا پلّہ بھاری رہے گا۔ (تاریخ الخلفائ:121، شعب الایمان للبیہقی) آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:
عربی زبان میں ”البکر” جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ”ابوبکر” کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ”ابوبکر” کے نام سے مشہور ہوگئے۔
عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ”والا” اور ”بکر” کے معنی ”اولیت” کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ”اولیت والا” ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔
اللہ کے پیار محبوب ۖ کے پیارے دوست حضرت ابوبکرصدیق اکبر جیسی عظیم ہستیوں کی شان اقدس میں کچھ لکھوں ایسا مجھ جیسے کم علم اور گناہگارانسان سے ممکن نہیں۔ ایسی عظیم و مقد س ہستیوں کے متعلق اگر کچھ لکھا پڑھا یا سمجھا جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم نبی ِ غفور رحیم و کریم ۖ کی نظر کرم کے علاوہ کچھ نہیں ، یااللہ مقدس و محترم ہستیوں کے صدقے عشقِ رسول عطا فرمااور اپنے پیارے محبوبۖ سے پیار کرنے والے عظیم لوگوں کا قرب عطا فرما۔