ساری دنیا کو خبر ہے کہ اسرائیل امریکہ کا بغلی بچہ ہے لہذا مشرقِ وسطی کی سیاست میں اسے کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ امریکہ سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اسرائیل کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا یونکہ امریکی میڈیا، تجارت اور پارلیمنٹ پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔اسرائیل سے بگاڑ کا مطلب ملکی استحکام کو طوفانوں کے حوالے کرنا ہے کو کوئی بھی امریکی حکومت ایسا کرنے خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ اسرائیل کی خو شنودی ہر امریکی صدر کی کمزوری رہی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔امریکی حمائت کے بغیر اسرائیل کی کیا جرات تھی کہ وہ مسلمانوں کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہو جاتا اور ان کو سرِ عام رسوا کرنے کا موجب بنتا۔ایک خانہ بدوش اور بے خانماں بنی اسرا ئیل کو عرب کے دل میں جگہ دینے کا واحد مقصد مسلمانوں کو جنگ میں الجھائے رکھنا تھا اور اس میں امریکہ مکمل طور پر کامیاب ہے۔
اسرائیلی حکومت کی بقا امریکہ کا ذمہ داری ہے لہذا جہاں کہیں بھی شک گزرا کہ کوئی حکومت اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ بن سکتی ہے تو اس حکومت کا با قی رہنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ایران اور افغانستان کی طرح اخوا ن المسلمون کی حکومت سے بھی اسرائیلی وجود کو خطرے کا امکان تھا لہذا مرسی حکومت کا خا تمہ نوشتہ دیوا رتھا۔ امریکی اشیر واد سے مرسی حکومت تو ختم کر دی گئی لیکن گلی کوچوں میں جس طرح مظاہرین کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے اس نے نئی حکومت کے چہرے کو عوامی خون سے داغ دار کر دیا ہے۔ جمہوری تاریخ میں اپنے عوام کے پر امن احتجاج کو کچلنے کیلئے تحریر چوک پر ٹینکوں سے حملوں کو پہلی بار دیکھا گیا ہے،۔
ہزاروں لوگ ٹینکوں کی اس چڑھائی کے نتیجے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اسلامی تحریک کو ایسی تقویت بخش رہے ہیں جسے دبانا موجودہ حکمرانوں کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ کسی بھی تحریک میں جب خون شامل ہو جا ئے تو پھر اس تحریک کو کچلنا ممکن نہیں رہتا۔ مصری عوام محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور مرسی حکومت کی بحالی چاہتے ہیں لیکن دنیا کے ناخدا اس احتجاج پر گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں اور عوامی خون کے بہائے جانے پر مکمل خا موش ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ مصر میں مرنے والے لوگ انسانوں کی صف میں نہیں ہیں۔
اگر ایسا ہوتا تو انسانی حقوق کے علمبردار بے گناہوں کے قتلِ عام پر آسمان سر پر اٹھا لیتے اور پوری قوت سے فوجی حکومت کو بے رحم سفاکیت سے روکتے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ فوجی حکومت کو امریکہ کی اشیرواد حاصل ہے۔ نیل کے ساحل سے لے کرتا بخاکِ کاشغر پوری اسلامی دنیا پہلے ہی خلفشار اور ہنگاموں کی زد میں ہے اب مصر میں غیر جمہوری تبدیلی نے اس ملک کے اندر بھی خا نہ جنگی اور خلفشار کو ہوا دے رکھی ہے۔ مغربی ممالک خوش ہیں کہ اسلامی دنیا ہنگاموں اور خلفشار کی نذر ہو کر اپنی توانائیاں کھو رہی ہے۔ اس خلفشار کی وجہ سے اسلام دشمن طاقتیں ہر خطرے سے آزاد ہو تی جا رہی ہیں کیونکہ جھنوں نے انھیں روکنا اور ٹوکنا تھا ان کے گھر میں تو آگ لگی ہوئی ہے۔
مصر اپنے محلِ وقوع کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ملک ہے۔ یہ ایشیا ور افریکہ کے سنگم پر واقع ہے اور عرب دنیا کا سب سے بڑ املک ہے جس کی تہذ یب دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے۔ دریائے نیل کے دامن میں آباد یہ ملک کبھی اسلام کا سب سے مضبوط قلعہ ہوا کرتا تھا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کا یہ تشخص کمزور ہوتا چلا گیا اور آمروں نے اس کے تاریخی تفوق کا بیڑہ غرق کر دیا۔ عربوں میں مصر کے بغیر اسلام کی سطوت کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور شائد یہی وجہ ہے کہ اس ملک پر ساری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں کہ یہ کونسی کروٹ بیٹھتا ہے؟ ۔مغرب کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مصر پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھے اور مصر کے نظامِ حکومت میں اپنی مرضی کا سکہ چلائے یہی وجہ ہے کہ مغرب نے مصر میں ہمیشہ آمریتوں کی حمائت کی ہے ویسی ہی حمائت کی ہے جیسی حمائت اس نے پاکستان میں مارشل لائی حکومتوں کے نام لکھی تھی۔
Misr
مصر کے سارے آمر امریکہ کے بغلی بچے تصور ہو تے ہیں اور امریکی اشیر واد کے بغیر وہ سانس بھی نہیں لیتے۔ امریکی حمائت کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کو زیرِ پا رکھا جائے اور انھیں کھل کر کام کرنے کے مواقع نہ دئیے جائیں تا کہ مصر میں اسلامی سوچ پروان نہ چڑھ سکے۔ مصر میں ہر آمر نے مذہبی اور دینی جماعتوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنائے رکھا اور اپنے جبر اور تشدد سے سالہا سال اپنا اقتدار قائم رکھا لیکن ہر جبر کی سیاہ رات کو ایک دن ختم ہو جانا ہوتا ہے اور نئی سحر کا طلوع ہونا لازمی قرار پاتا ہے۔ عوام کی قربانیاں اور ان کی جدو جہد رنگ لاتی ہے اور آمریت کا بے پناہ جبر اپنے ہی بوجھ سے دم توڑ جاتا ہے۔ اخوا ن المسلمون پر عوام کا بے پناہ اعتماد اسی نئے انقلاب کا پیش خیمہ ہے، اس انقلاب کو برپا ہو کر رہنا ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔
اسلامی انقلاب وقت کی ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک کر لینا انتہائی ضروری ہے لیکن امریکہ اسے ماننے سے انکاری ہے تبھی تو اس سارے جمہوری نظام لپیٹ کر فوجی جنتا کو آواز دی گئی ہے۔شام کے خلاف امریکی عزائم کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ شام میں بشار الاسد ایک آمر ہے اور وہ عوامی امنگوں کا پاسبان نہیں ہے ۔اس نے اقتدار کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھا ہوا ہے لیکن یہ تو پوری اسلامی دنیا کے رویے ہیں کہ اقتدار کا حق صرف انہی کے خاندانوں کو حا صل ہے اور رعایا کا کام ان کا حکم بجا لانا ہے۔ جو کوئی اس روش سے بغاوت کا اعلان کرتا ہے اسکی زندگی کا چراغ بجھا دیا جاتا ہے اور یہی سب کچھ شام میں بھی ہو رہا ہے۔ بشار الاسد اپنے اقتدار کی خاطر اپنے ہی لوگوں کا لہو بہا رہا ہے اور ہزاروں لوگ اسکی ہوسِ اقتدار کا نشانہ بن رہے ہیں۔
شامی حکومت اور مخالفین میں کشت و خون کی جنگ جاری ہے اور کوئی فریق بھی پسپائی اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ مظاہروں میں شدت آنے کے ساتھ ہی شام پر عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں جسکی وجہ سے امریکہ شام پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ اسرا ئیل کے خلاف ایک اور مضبوط آواز خاموش ہو جائے۔ امریکہ کا ایک بحری بیڑہ پہلے ہی مشرقِ وسطی میں ہے جبکہ دوسرا بحری بیڑہ مشرقِ وسطی کیلئے روانہ ہو چکا ہے۔ شام آگ اور خون میں نہا رہا ہے اور یہی حال مصر کا ہے جسکی گلیوں میں مصری فوج اپنے ہی لوگوں کو کچل رہی ہے۔سب سے بڑا قتلِ عام رابعہ العدویہ میں ہوا جس میں چار ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہوئے۔
مسجد میں پناہ لینے والے مظا ہرین کو جس بے دردی سے جلایا گیا اس نے مسجد کے تقدس کو بھی پامال کر کے رکھ دیا۔ ہزار ہا اخوانیوں کو گرفتار کر کے سخت اذیتیں دی جا رہی ہیں تا کہ وہ اخوان المسلمون سے کنارہ کشی اختیار کر لیں لیکن فوجی جنتا کو اس میں کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ اخوا ن المسلمون کے حامیوں نے سچائی کا ساتھ دینے کا عہد کر رکھا ہے۔ اسلامی دنیا کا ضمیر بھی مردہ ہو چکا ہے اور وہ درپردہ اس قتلِ عام کو ہوا دے رہی ہے۔ اقتدار کی جنگ بڑے خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے اور جلد فیصلہ ہو جائیگا کہ اس جنگ میں اقتدار کا ہما کس کے سر پر بٹھایا جائیگا۔ مصر میں تو واضح ہے کہ مصری فوج ہی اقتدار پر قابض رہیگی چاہے اس میں مزید ہزاروں لوگوں کو موت کی آغو ش میں پہنچا دیا جائے۔
لیکن شام میں اقتدار کس کی جھولی میں ڈالا جائیگا اس کا اعلان بھی جلدی ہو جائیگا۔ دونوں بڑے اسلامی ممالک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں جب کہ اسلام کی وا حد ایٹمی قوت پاکستان بھی د ہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اس کی شکست و ریخت کی تیاریاں بھی زورو شور سے جاری ہیں۔ اسرا ئیل بڑے سکون میں ہے کہ اس کی پالیسیوں نے اس کے دشمنوں کو عدمِ استحکام کے حوالے کر رکھا ہے اور ان میں اتنی تاب نہیں رہی کہ وہ اسکے وجود کیلئے بڑ اخطرہ ثابت ہو سکیں۔
پاکستان کے بارے میں اسرائیلی عزائم سے پوری دنیا آگاہ ہے لہذا اسرائیل کی خو اہش ہے کہ پاکستانی ریاست کو کسی طرح سے شکست و ریخت کا شکار کیا جائے کیونکہ یہی وہ واحد اسلامی ریاست ہے جو اس کا غرور خاک میں ملانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکہ آج کل اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور پاکستان کا عدمِ استحکام اسکی پہلی یرجیح ہے۔ اس کیلئے اس نے داخلی اور خارجی عناصر کو سر گرمِ عمل کیا ہوا ہے تا کہ پاکستان خانہ جنگی کا شکار ہو کر اپنی وھدت اور سالمیت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور یوں اسرائیلی لابی گھی کے چراغ جلائے لیکن شائد وہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان عطیہ خداوندی ہے لہذا یہ آسانی سے بکھرنے والا ملک نہیں۔۔