تحریر: محمد وقار پچھلے پندرہ روز سے سیاسی بھونچال کا سماں تھا ،جدھر دیکھو وہاں پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے متوالے جوش و خروش دکھاتے نظر آتے کوئی نیشنل اسمبلی کے حلقہ 122 کو دنگل قرار دیتا اور کوئی گمسان کی جنگ۔دراصل بلدیاتی انتخابات کا دور دورا ہونے کے باعث ضمنی انتخابی کمپین بہت زیادہ ایکٹیو دکھائی دی بے تحاشہ فلیکسز اور بینرز آویزاں کئے گئے دونوں امیدواروں نے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیریں۔جہاں حکمران جماعت اپنی مشینری استعمال کرتی نظر آئی وہیں تحریکِ انصاف نے بھی کوئی کسر باقی نہ رہنے دی پیسے کی شدیدبرسات کی اور نتیجہ واقعتا کانٹے دار آیا۔ووٹر ز کا ٹرن آؤٹ اس بار کم رہالیکن اس کے لیے پی ٹی آئی یہ نہیں کہہ سکتی کہ نواز لیگ نے ان کے ووٹر کو گھر سے نہ نکلنے کے لیے مجبور کیا سچ تو یہ ہے کہ لوگ اُکتا چکے ہیں ان سیاسی جھمیلوں سے متنفر ہو چکے ہیں۔میں نے نیوز چینلز سوئچ کرنا چھوڑ دیئے تھے بس جب نتائج آئے تو عارضی سا جائزہ لیا اور جیسا کہ حالات کہتے تھے کہ فاتح نواز لیگ ہی ہوگی مگر ایڑی کی چوٹی کا زور لگانے والی پی ٹی آئی ٹف ٹائم ضرور دے گی۔
ہار کے بعد اب جنونی اپنی باقی رہتی عزت کو ہتک سے بچانے کے لیے الیکشن کے آخری مرحلے کو دھاندلی کا زینہ قرار دے رہے ہیں اور تحقیقات کے لیے درخواست جمع کر چکے ہیں۔لوگ کہتے رہے نواز شریف لاہور کی سڑکوں پر گھومتا رہا وہ لاہور آئے ضرور پر سڑکوں پر عوام کے لیے میسر نہیں ہوئے نہ ہی انہوں نے یہاں آکر کچھ ایسا کیا جس سے عوام مستفیض ہوئے ہوں شاہانہ انداز میں آئے اور چلے گئے پبلک انڑیکشن نہیں ہوا گردن سے سریا نکال دینے جیسی باتیں محض اختراع ہیں فطرت کبھی نہیں بدلتی ، اگلے دن جی سی یو لاہور پہنچا میرے احباب الیکشن پر ڈبیٹ کر ررہے تھے کچھ پی ٹی آئی کے چاہنے والے تھے تو کچھ نون لیگ کے ،شرکاء میں طلحہ شہاب سعید،فہد منیر،اسد رضا،احسن عظیم،جاوید اقبال،کاشف وٹو اور دیگر شامل تھے تاہم سب نے ایک دوسرے کی آراء کا احترام کیا میں نے اس طرزِگفتگو سے جان چھڑائی شام کو معمول کے مطابق ٹہلنے کے لیے پارک کا رُخ کیا تو جوگنگ ٹریک پر ہر کوئی اس الیکشن کے حوالے سے اپنے دلائل دیتا دکھائی دیا۔
عوام الناس نے واقعی اس انتخاب کو بہت افادیت کا حامل سمجھ رکھا تھا تاہم آنے والے نتیجے سے نہ ہی نواز لیگ مقبولیت کی حقدار کہلائی ہے اور نہ پی ٹی آئی دونوں اطراف سے مشینری کے استعمال بھی ان کا گراف اپ نہ کر سکا اور عوام ناپید و بیزاردکھائی دیئے دھاندلی کا تعین پھر نہیں ہو سکا لیکن دیکھا جائے تو بے ضابطگی کا مطلب دھاندلی ہی ہے لیکن اس کا ذمہ دار بے تجربہ عملہ ہے نہ کہ کوئی سیاسی جماعت ، پیپلز پارٹی کھڈے لائن لگ گئی اور لاہور میں 819 ووٹ حاصل کر پائی جس سے ظاہر ہوگیا کہ اس کی بچی کچی ساکھ بھی نہ رہی ۔پی پی 147سے پی ٹی آئی فاتح قرار پائی تو اوکاڑہ این اے 144سے آزاد امیدوار جو یقینا مسلم لیگ نواز جوائن کریں گے۔ایاز صادق ایک مدبر سیاستدان ہے سیاست میں بلند قدوقامت رکھتے ہیں۔
Aleem Khan
جبکہ علیم خان پر جنرل مشرف کے حامی اور لینڈ مافیا جیسے سنگین الزامات تھے تاہم چیئرمین تحریکِ انصاف نے اپنے پارٹی کارکنوں کو منالیا اور عبدالعلیم خان کا امیج بہتر کرنے کی سر توڑ کوشش کی بھرپور سپورٹ اور شاندار مقابلے کے بعد یہ سیٹ پی ٹی آئی ہار گئی۔اب لوکل باڈی الیکشن کا ٹائم سر پر آپہنچا ہے یہ بتانا ضروری ہے کہ کے پی اور بلوچستان میں یہ الیکشن ہو چکے ہیں لیکن پنجاب اور سندھ نے اس کے انعقاد میں طعطلی دکھائی اور سست روی کااظہار کیا۔پنجاب میں پھر حلقہ بندیوں پر حکومت اتفاق کر چکی مگر حکومتِ سندھ اپنی ڈھٹائی پر قائم ہے۔ 2013 میں بلدیاتی اتخابات کروانے کا واویلا ہوا توٹکٹوں کی بھرمار لگ گئی بہت سے لوگ پیسہ خرچ کر کہ پارٹی ٹکٹیں حاصل کر پائے پلس اشتہاری مہم میں بھی انہوں نے اپنابہت پیسہ اجاڑا لیکن بے ربط حلقہ بندیوں کہ باعث تاخیر کا شکار ہونے والے اس الیکشن کے لیے اب نئے امیدوار وں کا چنا ؤ ہوچکا ہے۔
پارٹی فنڈ کے نام پر چند حلقہ جات کے ایم پی اے امیدواروں سے بڑی رقم بٹور چکے ہیں ،ٹکٹ کے خواہاں اشخاص سے تحائف بھی لیے گئے ہر وہ تدبیراتی ہتھکنڈہ اپنا یا گیا کہ علاقائی چیئرمین اُن کے تابع رہے ان کے احترام میں مودب ہو جایا کرے اور وہ اپنی من مانی کرتے رہیں ۔ 2013کی حلقہ بندیاں گڈ مڈ تھیں جن میں اب درستگی کی گئی ہے لیکن حکومتِ سندھ کو ان پر اعتراض ہے جبکہ پنجاب حکومت ان پر بلکل بھی معترض نہیں اور لوکل باڈی الیکشن کروانے کا ارادہ رکھتی ہے مگر کیا خوب ہوتا کہ وہی نظام رہتا ناظم اور نائب ناظم والا با استحقاق سسٹم جہاں عوام جس سے مطمئن ہوتی اُسے ووٹ دیتی نظام پرانا ضرور تھا پر کسی طور پر بھی فرسودہ نہیں ۔لوکل باڈی الیکشن مرحلہ وار ہونگے ان کے نزدیک آنے کی وجہ سے کارنر میٹنگز کا روزانہ کی بنیادوں پر اہتمام ہو رہا ہے۔
Election
بلدیاتی انتخابات ہمیشہ حکومتِ وقت ہی جیتا کرتی ہے لیکن بے حد پیسہ بہا کر پی ٹی آئی کے کینڈیڈیٹ سمجھ رہے ہیں کہ وہ نام نہاد جنون کے نعرے کو پیسے کہ زریعے عوام کی آواز بنا دیں گے جبکہ ان کے حمایتی چند جوان ہیں اور کچھ وہ لوگ ہیں جو ان کے ظہرانوں میں شرکت کر کے خود کو مزین کر رہے ہیں۔پنجاب میں پاکستان کی 52 فیصد آبادی رہتی ہے اس لیے یہاں شفاف الیکشن کا ہونا انتہائی اہم ہے اس سطح کے الیکشن عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر کوئی متوسط شخص لڑ لیا کرتا ہے مگرا ب اس کے لیے بھی سفارش یا پیسہ معیار گردانا جانے لگا ہے۔ایک دوسرے کے مقابلے پر انتخابی دفاتر کھولنے کی دوڑ بھی جاری ہے تھوڑے بہت تنازعات بھی ابھرتے ہیں لیکن شکر ہے کوئی ناخوشگواری پیش نہیں آتی بھرپور احتمال ہے کہ لوکل باڈی الیکشن میں نواز لیگ غالب رہے گی۔
لیکن قابلِ غور بات یہ ہے مرکزی دھاروں کے علاوہ پسماندہ علاقوں میں کچھ امیدوار ایسے بھی نامزدگی حاصل کر چکے ہیں جن پر سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں لہٰذا حمزہ شہباز اور مسلم لیگ نواز کی قیادت ہوش کے ناخن لے اور بریفنگ پر مکمل انحصار نہ کرے اور خود بھی پڑتال کرے الیکشن کمیشن کو بھی اس معاملے پر ندا بلند کرنی چاہیے کسی کے پریشر کے تحت سانپ نہیں سونگھ جانا چاہیے ۔انشاء اللہ جلد وہ وقت آئے گا جب انتظامی امور عام آدمی کی زیست میں ہونگے۔