تحریر : عفت بھٹی بھر دو جھولی میری یا محمد۔۔۔۔لوٹ کر میں نہ جائوں گا خالی یہ قوالی جانے کیوں میری زباں پہ خود بخود صبح صبح وارد ہو جاتی ہے شاید انسان کے اندر کی ایک آواز اور طلب ہوتی ہے کہ وہ ان لوگوں سے رشتہ جوڑے رکھنا چاہتا ہے جو اس کے دل کے قریب ہوتے ہیں۔ یہاں تو بات آقا کی ہے تو کیوں نہ ورد جاری ہوتا ایک گوں نا گوں تسکین کا پہلو اس میں پوشیدہ ہوتا ہے، دوپہر کو خبر سنی دل دھک سے رہ گیا کہ امجد صابری ایک حملے میں جاں بحق ہوگئے۔
وہ اپنی رہائش گاہ سے ریکارڈنگ کے لیے جا رہے تھے کہ لیاقت آباد میں ان کی گاڑی پہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی ان کے سینے اور سر میں گولیاں لگیں ۔انہیں عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا مگر جان لیوا زخموِں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ٹارگٹ کلر اطمینان سے کھلے عام اپنی کاروائی کر کے فرار ہو گئے۔
کسی زمانے میں غلام فرید صابری اور ان کے بھائی مقبول صابر ی قوال کا طوطی بولتا تھا ۔ ٢٣ دسمبر١٩٧٦ کو پیدا ہونے والے امجد صابری، غلام فرید صابری کے صاحبزادے تھے۔ ان کو فن قوالی وراثت میں ملا تھا۔ نو سال کی عمر میں انہوں نے موسیقی سیکھنے کا آغاز کیا تھا۔ وہ بین الاقومی شہرت کے حامل تھے ان کی گائی ہوئی قوالیاں بہت مقبول ہوتی تھیں۔
Amjad Sabri Car
مگر نامعلوم درندوں نے انہیں ہمیشہ کی نیند سلا دیا ۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے وطن کے علم و فن کو کس طرح دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔حکیم محمد سعید کو بھی قتل کیا گیا ،کمالِ حیرت ہے کہ لفظ نامعلوم افراد کتنا بامعانی اور زندگی کتنی ارزاں ہوگئی ہے ۔اس پہ طرہ یہ کہ یہ نامعلوم افراد آج تک معلوم کی فہرست میں نہیں آتے کہ ان کا گریبان پکڑا جائے۔
میری سمجھ سے یہ بات بالا تر ہے کہ قانون اپنے لمبے ہاتھ ہونے کے باوجود بے بس ہے اور مجرم اس کے شکنجے میں اول تو آتے نہیں آ جائیں تو مکھن سے بال کی طرح نکل جاتے ہیں اور قانون ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے ۔ہر اہل درد کا دل ایسی خبروں سے دکھتا ہے اور زندگی سے ہر لمحہ اعتبار کم ہوتا جا رہا ہے۔
جانے والا تو چلا گیا مگر اس کے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے ایک ایسا خلا چھوڑ گیا جو کبھی پر نہ ہوگا ۔کچھ ماہ پہلے ایک شو میں امجد صاحب کے گھر کے افراد بھی آئے تھے ان کے بیٹے نے کہا ہمیں پاپا سے شکایت ہے کہ یہ ہمیں کم وقت دیتے ہیں اب وہ بچہ کس سے گلہ کرے گا ۔بہت دکھ اور مقام ِافسوس ہے کہ لفظ خاموش ہیں اور چشم نم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔