زندگی قدرت کی دی گئی نعمتوں میں سب سے اہم ہے کیونکہ کسی بھی نعمت سے لطف اندوز ہونے کیلئے زندہ رہنا لازمی جز ہے۔ یہ بات ہمیشہ سے معمہ رہی ہے کہ کوئی اپنی زندگی سے کیوں ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ ایک طرف انسان کے نجی معاملات ہوتے ہیں جن سے اپسی وابسطہ افراد ہی آگاہ ہوتے ہیں دوسری طرف معاشرتی امور میں الجھ کر رہ جانا ایک الگ اور گھمبیر مسلۂ ہے، ان سب سے بڑھ کر سب سے بڑا مسلۂ اپنے تخلیق کار سے دور ہوجانا اسکی بتائے ہوئے اصولوں کی بجائے اپنے بنائے ہوئے یا دنیا کے بنائے ہوئے اصولوں پر کاربند ہوجانا ہے۔ مذکورہ تمام توجیحات مجموعی طور پر یکسویکسر نہیں ہوسکتیں، کہیں نا کہیں انسان بشری تکازے کی ذد میں آہی جاتا ہے ۔ یہ بشری تقازہ اسے اشرف المخلوقات ہونے کی بنا پر اکساتا ہے۔ حالات واقعات کی شدت کسی سمندری طوفان سے کم نہیں ہوتی بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو کشتی کو موقع کی مناسبت سے کشتی کو سمندر کے رحم و کرم پر سنبھال کر چھوڑ دیتے ہیں جبکہ اکثریت وقت کا انتظار کئے بغیر سمندر میں کود کر اپنی جانوں کو ضائع کردیتے ہیں،یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ذہنی طور پر کمزور ہوتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ حتمی فیصلہ خود صادر ہوجاتا ہے پھر وہ اپنا فیصلہ سمندر میں کود کر کیوں کرلیتے ہیں۔
ابھی کراچی کے شہری ایک معصوم حبیب اللہ کی خودکشی کے معمے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ محمد خالد نامی رکشا ڈرائیور نے رکشے سمیت خود کو آگ لگالی اور آخر کار محمد خالد کی زندگی بھی موت اپنے ساتھ لے گئی۔ محمد خالد نامی شخص کاتحریر کردہ وصیت نامہ ایک خط کی شکل میں منظر عام پر آیا ہے جس میں محمد خالد نے بہت واضح طور پر اپنی خودسوزی کو سراسر اپنے ساتھ ہونے والی ایک قانون نافذ کرنے والے کی ناانصافی کو قرار دیا ہے۔ محمد خالد کیساتھ ہونیوالی زیادتی اتنی بڑی نہیں تھی کہ اسے زندگی جیسی انمول چیز کو داؤ پر لگانا پڑتا کیونکہ یہ تو اس معاشرے کے تقریباًہر فرد کے ساتھ ہوتا ہے۔ محمد خالد کی عزت نفس کا استحصال کیا گیاجسے وہ برداشت کرنے سے قاصر نکلا۔ محمد خالد یہ بھی جانتا تھا کہ خودکشی گناہ ہے لیکن اسکی عزت نفس اتنی مجروح ہوچکی تھی کہ جس نے اسے سر عام یہ گناہ کرنے پر امادہ کرلیا۔
پاکستان کی پولیس کس بھی رنگ کی وردی میں ملبوس ہو آپ کی گستاخی کو آپ سے ہاتھ ملا کر معاف کردیتی ہے (ہاتھ ملانے سے مراد تو سب جانتے ہیں)، خوش نصیب ہو ہوتا ہے جو بڑی گاڑی میں بیٹھا ہو پھر یہی ملانے والا ہاتھ ماتھے پر ہوتا ہے جسے ہم سلیوٹ مارنا کہتے ہیں۔ محمد خالد شائد بدعنوانی کیخلاف جان دینے والا پہلا شہید ہے ( خودکشی اسلام میں حرام ہے بلکل اسی طرح جسطرح بدعنوانی)جس نے یقیناًیہ سوچ کر اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا ہوگا کہ شائد اس جیسے دوسرے بہت سارے رکشہ درائیوروں کی زندگیاں اس روز روز کی کچ کچ کل کل سے محفوظ ہوجائیں اور یہ لوگ بھی عزت سے اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کما سکیں اور سب سے بڑھ کر رشوت جیسی لعنت سے چھٹکارا پا لیں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والوں کی بد زبانی اور اشتعال انگیزی سے محفوظ ہوجائیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوجائے گا ، کیا ہماری پولیس اس حادثے کو بطور ایک سبق یاد رکھے گی یا پھر کوئی اور محمد خالد اپنے آپ کو آگ لگاکر انہیں یاد کروائے گا یا پھر ہر روز ایک محمد خالد پر پاکستان کی کسی سڑک پر اپنی جان نذرانہ پیش کرے گا؟ پولیس کیلئے زندگی موت کسی معرکہ سے کم نہیں یہ تو روز ہی اس عمل سے گزرتے ہیں کبھی کسی کی گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں یا کبھی کسی کو اپنی گولی کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔
ایک طرف وفاقی حکومت کے ایجنڈے کیمطابق پولیس کو غیر سیاسی کرنا ہے اور مہذب بنانا ہے ، یعنی بین الاقوامی سطور پر استوار کرنا ہے ۔دوسری طرف سندھ پولیس کے موجودہ چیف پولیس بھی پولیس میں بہتری کیلئے اقدامات کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ اس مضمون کے توسط سے پولیس کے اعلی عہدیداروں اور ذمہ داروں سے درخواست کرنی ہے کہ پولیس کا عمومی تاثر بہت خراب ہے عام لوگ پولیس کو دیکھ کر بغیر کسی وجہ کہ راستہ بدل لیتے ہیں بھلا ایسی پولیس ایسے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں عوام کو اپنی خیرخواہی دیکھائی نہیں دیتی۔ پولیس کے ادارے معاشرتی امور پر قابو پانے کیلئے برتاؤ کے حوالے سے تربیتی نشستوں کا اہتمام کریں۔
پولیس عوام کو عزت دے گی تو یقیناًعوام بھی پولیس کو حقیقی عزت دیگی۔ محمد خالد کا معاملہ کسی کی سزا سے اپنے منتقی انجام کو نہیں پہنچ سکتا ، اسکا انجام اس دن ممکن ہوگا جب قانون نافذ کرنے والے یکساں طرز پر اپنا برتاؤ دیکھائیں گے۔ کوئی شک نہیں دور حاضر میں ٹریفک پولیس کی نوکری بہت مشکل ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ اپنا غصہ کسی پر بھی اور کسی بھی طرح سے نکالو۔خدارا کسی بھی معاملے کو خودسوزی تک نا جانے دیا جائے۔ ٹریفک کے قوانین کی بھرپور باعزت طریقے سے اطلاق کو لازمی قرار دیا جائے اور عوام میں ٹریفک قوانین سے آگاہی اور شعور بیدارکرنے کو یقینی بنایا جائے ۔ ایک مہذب معاشرے کیلئے ٹریفک قوانین پر عمل درامد بہت ضروری ہے۔ تاکہ ہم محمد خالد جیسے واقعات سے بچ سکیں ہمیں علم ہونا چاہئے کہ ایسے ناحق خون کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی محمد خالد کے لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے (آمین یا رب العامین)