تحریر : حفیظ خٹک وطن عزیز میں قانون سازی کیلئے صوبائی اور قومی اسمبلی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے اور انہیں زیادہ سہولیات پہنچانا اراکین کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ ان ذمہ داریوں کی ادائیگیوں تک پہنچنااور اسمبلی جاکر اس ضمن میں خدمات سرانجام دینا اک طویل راستہ ہے جن سے گذرنے کے بعد اراکین کی اکثریت اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر دیگر سرگرمیوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں ۔ وہاں پہنچ کر نہ تو انہیں عوام یاد رہتے ہیں اور نہ عوام سے کئے گئے مسائل کے حل کیلئے وعدے ۔ نت نئی قانون بندیاں کرکے عوام کیلئے بسا اوقات جینا اور بھی دشوار کردیتے ہیں ۔ اقلیت و اکثریتی لحاظوں کو اک جانب رکھ کر اس نوعیت کی قانون سازی کی جاتی ہے جس وطن عزیز کی عوام متاثر ہوتی ہے۔ گذشتہ دنوں صوبہ سندھ کی اسمبلی میں بھی اسی نوعیت کا اک بل پاس کیا گیا جس کی مذہبی جماعتوں نے محالفت کی۔
مختلف علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کے حوالے سے کرمنل لاء پروٹیکشن آف منارٹی بل 2015 کی منظوری پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بل کی منظوری قران و سنت کے منافی ہے ، بل کی منظوری اسلامی تعلیمات اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور روح کے خلاف ہے، اسلام قبول کرنے پر پابندی کا یہ قانون، شریعت اسلامیہ اور عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون اسکے تمام مضمرات پر غور کئے بغیر محض غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لئے نافذ کیا گیا ہے۔، حکمراں مذہبی معاملات میں عوام کو الجھانے کے بجائے عوام کے اصل مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ یہ بل اسلام کی ترویج و اشاعت روکنے کے مترادف ہے ، تمام مذہبی جماعتوں کا یہ مشترکہ موقف ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو اس بل کا نوٹس لینا چاہئے۔
جامعہ دارالعلوم کے مفتی محمد تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ اسلام لانے پر پابندی کا یہ قانون شریعت اسلامیہ اور عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ دینی اور سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس شرمناک قانون کو منسوخ کرانے کے لئے اپنا دینی فریضہ ادا کریں۔ یہ درست ہے کہ قرآن کریم کی رو سے کسی کوزبردستی مسلمان بنانا ہرگز جائز نہیں اور اس پر پابندی حق بجانب ہے ۔اسلامی شریعت کی رو سے بچہ پندرہ سال کی عمر میں ، بلکہ بعض اوقات اس سے پہلے بھی بالغ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ وہ بالغ ہو کر شرعی احکام کا مکلف ہو چکا ہے ، اسے اسلام قبول کرنے سے تین سال تک روکنا سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔
Law
اس قسم کی زبر دستی کا قانون غالباً کسی سیکولر ملک میں بھی موجود نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون اس کے تمام مضمرات پر غور کئے بغیر محض غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لئے نافذ کیا گیا ہے۔مفتی تقی عثمانی نے وفاقی شرعی عدالت سے مطالبہ ہے کہ ازخود نوٹس لیکر اس قانون کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لیں اور اپنے اختیار کو استعمال کر کے اسے غیر مؤثر قرار دے۔ جمعیت علماء اسلام کے صوبائی نائب امیر قاری محمد عثمان نے مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے سندھ اسمبلی کے بل کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتی بل کی منظوری اسلامی تعلیمات اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور روح کے منافی ہے ، حکمران مذہبی معاملات میں عوام کو الجھانے کے بجائے عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں اور یہ بتائیں کہ خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ کس عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے ؟ اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ بچوں میں اسلام لانے والے سب سے کم سن نہیں تھے ؟ ان کا کہنا تھا کہ دین کی دعوت دینے سے کوئی ہمیں نہیں روک سکتا اس قانون کے خلاف بھر پور احتجاج کریں گے۔ جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی نائب صدرمفتی محمد عبدالعلیم قادری نے کہا کہ نیا قانون اسلام سے بیزاری کا ثبوت ہے۔
اگر ان کو پاکستان میں اقلیتوں کا لفظ برالگتاہے تو وہ اْس ملک میں چلے جائیں جہاں غیر مسلم اکثریت میں ہیں،ان کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی مملکت خداداد پاکستان میں ایساقانون نافذ نہیں کرنے دیاجائے گا جماعت اہلسنّت پاکستان کراچی کے ناظم صوفی حسین لاکھانی نے کہا کہ سندھ کے حکمراں شریعت سے متصادم قانون بنا کر اپنی عاقبت خراب نہ کریں ، سندھ حکومت کو بل کے حوالے سے علماء سے مشاورت کر کے اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل اسلام کی ترویج و اشاعت روکنے کے مترادف ہے۔ کوئی بھی غیر مسلم اپنی مرضی سے جب اور جس عمر میں چاہے اسلام قبول کر سکتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں رائج کم عمری کی شادیاں روکنے کا قانون ’چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929‘ کے مطابق لڑکے کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال جبکہ لڑکی کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 16 سال ہے۔ موجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔
Jamaat e Islami
جماعت اسلامی کے رہنما کا موقف بھی اس قانون کے حوالے سے واضح ہے انہوں نے بھی دیگر دینی جماعتوں کی اس قانون کی محالفت کی ہے اور ایسے کسی بھی قانون کے نفاذ کے خلاف دینی جماعتوں کے ساتھ مشترکہ موقف اختیار کرتے ہوئے اپنے عزائم کے تکمیل کا عندیہ دیا ہے۔ مسیحی برادری کے مختلف شعبہ جات میں خدمات سرانجام دینے والوں سے بھی اس قانون سے متعلق ان کی رائے معلوم کی گئی جس پر ان کا یہ کہنا تھا کہ کسی بھی مکتبہ فکر کی جانب سے یا عام مسلمانوں کی جانب سے انہیں زبردستی اسلام لانے کیلئے نہیں کہا گیا ، ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق اپنی زندگیوں کو گذرا رہے ہیں ۔ ان کا یہ موقف تھا کہ سندھ اسمبلی اور اس کے تمام اراکین سے ہمارا یک ہی مطالبہ ہے کہ وہ عوام کے مسائل کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریوں کوپورا کرنے پر توجہ دیں ۔ شہر میں ، ملک میں امن ہوگا اور مسائل نہیں ہونگے تو اقلیتی برادری سمیت اکثریتی بھی اپنی زندگیوں کو سکون سے گذاریں گے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔