کراچی (جیوڈیسک) سندھ اسمبلی ایک بار پھر مچھلی منڈی بن گئی، وزیر اعلیٰ سندھ کی تقریر کے دوران ایوان شیم شیم کے نعروں سے گونجتا رہا، سید قائم علی شاہ کہتے ہیں وزیر اعلیٰ ہاؤس پر احتجاج نہیں، حملہ کیا گیا، متحدہ کے ارکان نعرے لگاتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔
سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے۔ خواجہ اظہار الحسن کی تقریر کا جواب دینے کیلئے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ خود اٹھے اور جوشیلی تقریر کر ڈالی۔ 12 مئی کو جب قتل عام ہوا تو کس کی حکومت تھی ان پر 29 افراد کے قتل کے الزامات لگائے گئے ۔ وزیر اعلیٰ نے جب ایم کیو ایم پر کڑی تنقید کی تو متحدہ کے ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور احتجاج شروع کر دیا۔
احتجاج کے باوجود قائم علی شاہ نے تقریر جاری رکھی۔ اس دوران ایم کیو ایم کے ارکان سپیکر کے ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے اور نعرے لگاتے رہے۔ متحدہ کے ارکان کے جواب میں پیپلز پارٹی کے ایم پی ایز بھی سامنے آ گئے اور نعرے لگائے۔ ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا ، قائم علی شاہ کے پاس جا کھڑی ہوئیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔
کچھ دیر یہ ہنگامہ آرائی جا ری رہی اور دونوں جانب کے ارکان خوب نعرے لگاتے رہے جس کے بعد ایم کیو ایم کے ارکان واک آؤٹ کر گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ ، دہشت گردی اور سٹریٹ کرائم کراچی کے بڑے مسائل ہیں۔
ان کے دور حکومت میں کئی دہشت گرد پکڑے گئے۔ سندھ کی جیلوں میں 300 دہشت گرد ہیں ، سب جانتے ہیں جیلوں میں مجرموں کی دیکھ بھال کون کر رہا ہے؟ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ سندھ میں کسی کوامن وامان خراب نہیں کرنے دیں گے جس نے بھی جرم کیا ہو اسے کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔ گرفتار دہشت گردوں کی فہرست جلد میڈیا کو دیں گے۔
وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کہا کراچی آپریشن کا فیصلہ ڈیڑھ سال پہلے وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں ہوا۔ وزیر اعظم سمیت آرمی چیف نے ان کی کوششوں کو سراہا اور انتظامی صلاحیتوں کی تعریف کی۔