تحریر : قادر خان افغان ہمارے ایک سنیئر صحافی سردار عبد القدیر خان صاحب نے کہا کہ سندھ اسمبلی نے آج ایک تاریخ ساز قانون منظور کیا ہے جس کے تحت زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور شادی کرنے والوں کو7 اور سہولت کار کو5 سال قید ہوگی، بل کے مطابق18 برس سے کم عمر لڑکے اور لڑکی کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر پابندی ہوگی، زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کرنا جرم تصور کیا جائیگا، بالغ شخص کو مذہب تبدیل کرنے کے بعد 21دن تک سیف ہائوس میں رکھا جائے گا، جہاں مذاہب سے متعلق مواد فراہم کیا جائے گا اور متعلقہ شخص کو مذہب تبدیل کرنے سے قبل چند روز سوچنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ شادی جبری ہے یا مرضی کی؟اس کو طے کرنے کے لیے کیا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا۔یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ سہولت کار سے کیا مراد ہے؟لگتا ہے قانون کی زد میں مولوی،پولیس اہلکاروں کے علاوہ دوست اورسہیلیاں بھی آنے والی ہیں۔
مذہب کی تبدیلی جیسے معاملات پر سندھ اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے اراکین کی جانب سے پاکستان و اسلامی تاریخ کا متنازعہ ترین بل کا پاس کرنا ، ثابت کرتا ہے کہ جمہوریت واقعی ایک ایسا نظام ہے جہاں بندوں کو گنا جاتا ہے ، تولا نہیں جاتا ۔ میرے عزیز سردار صاحب ، آپ کس ملک کے ، کس صوبے کے ، کس شہر میں بیٹھ کر یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ لوگ جنھیں وضو کا طریقہ بھی نہیں آتا ہوگا ، جنھیں سورة اخلاص بھی پڑھنے نہیں آتی ، وہ اسلام کی قبولیت کیلئے ایسی قانون سازی کریں گے ، سردار صاحب آپ جیلبی کی طرح سادہ انسان ہیں ، سندھ کی اس جماعت کی بات کررہے ہیں جس کے چیئرمین کی خواہش ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم غیر مسلم بننا چاہیے۔ سیکولر ازم اور لبرل ازم جن کا ایمان ہے ، اسلام کی تاریخ سے جو واقف نہیںہے۔ دنیا کا ایک ایک بچہ جانتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کیلئے عمر کی کوئی حد اسلام نے مقرر نہیں کی ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔
لیکن سمجھ نہیں آتا کہ انھوں نے جن تعلیمی اداروں میں علم حاصل کیا ہے وہاں ، ان کو کلمہ طیبہ بھی پڑھایا گیا تھا کہ نہیں ۔ انھیں یہ بھی کسی نے نہیں نبتایا ہوگا کہ داماد رسول ۖ بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے مومن تھے ۔ انھیں یہ بھی کسی نے نہیں بتایا ہوگا کہ ابوجہل ، ‘ گستاخ رسول ۖ ‘ کو جہنم وصال کرنے والے دو ننھے مجاہد حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت معوذ رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔گستاخ رسول ۖ ‘ حارث بن طلال ‘ کو کم عمری میں مسلمان ہونے والے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ٨ ہجری کو جہنم رسید کیا تھا ۔حیرت ہے اس قانون پر ،جسے سندھ اسمبلی میں بیٹھنے والوں نے منظور کرلیا ۔ غیر مسلموں کو تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہے ، جبری مذہب کی تبدیلی کی بھی اسلام اجازت نہیں دیتا ، مسئلہ ہندو کا ہو یا عیسائی کا ، اگر ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا ازالہ کرنا مقصود تھا ، تو اسلام قبول کرنے کی شرائط کس اسلامی قانون کے تحت عائد کی گئی ہے۔
PPP
‘ سیف ہائوس ‘ میں 21دن رکھنے کے بعد اس کو کونسا لٹریچر فراہم کیا جائے ، ہندو مت کا ، عیسائیت کا ، اسلام کا یا پیپلز پارٹی کا منشور؟۔جبری تبدیلیکا تصور تک دین اسلام میں نہیں ہے۔ پھر سندھ حکومت کے پاس اس بات کا اختیار صرف اس لئے آگیا کہ وہ سندھ اسمبلی کی اکثریت جماعت ہے ، اپنے عددی اضافی قوت سے کوئی بھی قانون منظور کرلے۔ جبری شادیاں تو اسلام کے ماننے والوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہیں ۔ کیا وہ جبری شادی نہیں ہوتی ۔ کیا اس بچی سے پوچھا جاتا ہے کہ اس کی مرضی سے شادی ہو رہی ہے۔ کیا اس لڑکی کو کسی سیف ہائوس میں سوچنے سمجھنے کا موقع دیا جاتا ہے کہ جس کے ساتھ زندگی بھر ، رہنا ہے ، وہ اس کے قابل ہے کہ نہیں ۔کیا سندھ اسمبلی نے اس پر کبھی بل پاس کیا ۔سندھ اسمبلی نے حقوق نسواں میں قرآن کے ساتھ شادی ( نعوذ باللہ) ، درختوں کے ساتھ شادی اور جائیداد میں خواتین کے حصے کیلئے کونسا ایسا قانون منظور کیا ، جس میں وڈیروں کو سزائیں ہوئی ہوں ، جو اپنی اپنی جائیداد کی تقسیم کو بچانے کیلئے جبری طور پر اپنے خاندان کی عورتوں کی شادیاں ، قرآن ، درختوں سے کرا دیتے ہیں۔
فیوڈل ازم کی نمائندہ سندھ اسمبلی نے کبھی اس اقدام پر عمل درآمد کرایا۔ تبدیلی مذہب انسان کا اپنا ذاتی عمل ہے ۔ جبری تبدیلی مذہب پر قانون بنایا جاسکتا ہے ، اس کی سزا ، سزا موت بھی رکھی جا سکتی ہے ۔ لیکن یہ کونسا قانون بنا دیا گیا ہے کہ جس کی عمر18 سال ہو اوروہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرے گا تو 21دن اس کو سیف ہائوس میں رہنا ہوگا اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کرنا ہوگا ۔جب سے کراچی آپریشن میں دہشت گردوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سہولت کار کی اصطلاح متعارف کرائی ہے ، سندھ اسمبلی نے بھی مذہب کی تبدیلی کے لئے سہولت کار کو بھی موجب سزا کا حقدار قرار دے دیا ہے۔
لیکن قانون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اور ان پر ذات برداری والوں نے جبری تبدیلی کا جھوٹاالزام لگایا ، ان کے خلاف کیاکاروائی ہوگی؟؛ کیونکہ جبری مذہب کے معاملے میں جب نو مسلم کے خاندان والے پولیس ، کورٹ کچہری کرتے ہیں تو اس سے ایک جانب پوری دنیا میں اسلام کا امیج متاثر ہوتا ہے ، کیونکہ متعدد ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں کہ نو مسلم کے خاندان ، لڑکی یا لڑکے کے تبدیلی مذہب کو قبول نہیں کرتے اور جھوٹے مقدمات دائر کرکے نام نہاد این جی اوز کی مدد سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں ۔ان کے دعوے کے برخلاف متعدد نو مسلم جوڑوں نے عدلیہ میں بلا خوف اقرار کیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئے ہیں ، تو کیا اسلام کو بد نام کرنے والوں کے خلاف اور ان کے سہولت کار این جی اوز یا اراکین اسمبلی کے خلاف قانون میں کوئی شق رکھی گئی ہے۔
Islam
عزیزم ، سردار صاحب ، ہم پاکستان میں رہتے ہیں ، جیسے حاصل کیا گیا اسلام کے نام پر ، لیکن اسلامی کے ساتھ جمہوری کا طوق بھی ساتھ لگا ہوا ہے ، با حیثیت اسلام تو خود ایک مکمل دین ہے ، اس میں کسی دوسرے نظام کو ضم کرنے کا مطلب اسلام کی اصل روح و قوانین میں شرک کرنے کے مترادف ہے ۔ دین اسلام کو اپنے مرضی کے مطابق ڈھالنے والوں کی مثال قرآن کریم میں واضح دی گئی ہے کہ اپنے مطلب کی باتوں کو بیان کرتے ہیں ، لیکن جب ان کے خلاف حکم الہی ہوتا ہے تو اسے چھپا لیتے ہیں۔سردار صاحب ، آپ کس سے سوال کررہے ہیں ، جہاں کی وزرات تعلیم کا وزیر انگوٹھا چھاپ رہ چکا ہے ۔ آپ کس سے سوال کا جواب پوچھ رہے ہیں ، جن کا ہیرو ،محمد بن قاسم کے بجائے ، راجہ داہر تھا ، راجہ صاحب آپ کن سے کہہ رہے ہیں ، جن کو اسلامی رویات و ثقافت کے بجائے۔ صدیوں کی موہن جوڈرو کی رویات و ثقافت پر فخر ہے۔
دل پر لگے چھالوں کو جتنا پھوڑتے جائیں گے ، اتنا ہی خون رسنا شروع ہوجائے گا۔ کیا اس سندھ اسمبلی نے بھارت میں مسلمانوں کی جبری مذہب کی تبدیلی پر کوئی قرار داد منظور کی ہے ، کیا اس سندھ اسمبلی نے بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والء ظلموں کے خلاف کبھی آواز اٹھائی ہے ، بھارت کی گھر واپسی مہم ، جیسی ہندو ۔ بہو لائو ، مذہب بچائو ، جیسی انتہا پسند ہندو تنظیموں اور حکومت کے جبری مذہب کی تبدیلی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔یہاں ان کو چپ کو کیوں سادھ جاتی ہے ۔ یہ اقلیتوں کے لئے آواز اٹھانے والے نام نہاد اراکین قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی اور سیاسی جماعتیں، اپنے علاقوں میں ‘ دلت’ ذات سے جو ان سے اکثریت میں ہے۔ ان کو حقوق دیئے ہیں ، جانوروں سے بھی بد تر زندگی گذار رہے ہیں۔
ذات پات ، چھوت اچھوت میں پڑے یہ لوگ صرف مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں اور ہمارے ناقص عقل اور اسلام سے بے بہرہ اراکین اسمبلی ، مغرب اور لادینی قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اسلام کی روح و قوانین سے متصادم ، شخصی نظام کو فوقیت دیتے ہیں۔سردار صاحب جانے بھی دیں۔ کیا فائدہ لکھنے کا ، ویسے بھی کل اخبار کو ریہ سائیکل ہوجانا ہے یا پھر اس میں پکوڑے فروخت کئے جائیں گے ۔جو حکومت شراب کے نام پر ٹیکس لیتی رہی ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے گئی ہے ، چلی ہے وہ اسلامی قوانین و اصولوں کا احیا کرنے۔۔!!