سندھ (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ کی تحصیل کھپرو میں 23 سالہ گلشن شر کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے مبینہ طور پر واقعے میں ملوث سات میں سے چار افراد کو گرفتار کر لیا جس میں گلشن کا بھائی بھی شامل ہے۔
رپورٹس کے مطابق گلشن کے والد کی مدعیت میں دائر ایف آئی آر میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کی بیٹی کو اس کے شوہر نے چند ماہ قبل ‘کاری‘ قرار دے کر گھر سے نکال دیا تھا جس کے بعد اسے قتل کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ پولیس میں پناہ کی درخواست دینے کے بعد عدالت کی جانب سے گلشن کو دارالامان بھیج دیا گیا تھا تاہم چند دنوں بعد وہ اپنے والد کے ساتھ واپس گھر آگئی جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔
سندھ میں غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ نیا نہیں۔ رواں برس پولیس کی جانب سے سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک رپورٹ جاری کی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں 2014 ء سے 2019 ء کے درمیان صرف پانچ سال کے عرصے میں غیرت کے نام پر 769 افراد قتل کیے گئے۔ ان میں خواتین کی تعداد 510 ہے۔ جنوری 2019 ء سے جنوری 2020 ء میں صوبہ سندھ میں 132 خواتین قتل ہوئیں جن میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 109 ہے۔
صوبے سندھ میں غیرت کے نام پرقتل کے واقعات دیکھے جائیں تو سب سے زیادہ کیس ضلع لاڑکانہ اور اس سے ملحقہ اضلاع میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ ضلع لاڑکانہ میں ویمن اینڈ چائلڈ پروٹیکشن سیل کی ضلعی سربراہ نغمہ مزاری کے مطابق خواتین کے خلاف ہونے والا یہ جرم بڑھتا ہی جا رہا ہے، “یہاں ایک سال کے عرصے میں اب تک 60 کیسز ہوئے ہیں۔ ان میں سے صرف کشمور میں ہی24 کیس ہوئے جبکہ جیکب آباد، شکارپور، قمبر شہداد کوٹ اور لاڑکانہ میں بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ پولیس کی جانب سےگرفتاریوں کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اور میرے خیال سے اس کی ایک بڑی وجہ یہاں کا جاگیردارانہ نظام بھی ہے۔ ”
نغمہ مزاری کے مطابق یہاں غیرت کے نام پر قتل کے اکثر مجرموں کو بااثر افراد کی حمایت حاصل ہوتی ہے، ” مجرموں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ یہ کام کریں گے تو ان کو بااثر افراد کی جانب سے تحفظ ملے گا۔ پھر ان واقعات میں کمی نہ ہونے کی ایک وجہ خواتین کے حقوق سے آگاہی کی کمی بھی ہے۔ یہاں قبائلی علاقوں میں اب بھی خواتین کی حیثیت بھیڑ بکری سے زیادہ نہیں۔ جو بھی معاملہ ہو اس میں خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ جائیداد، لین دین یا کوئی ذاتی عناد۔ ان سب میں خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی خواتین کو خود کاری قرار دے کر کاری کا الزام دشمنوں پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے بدلے لیتے ہیں۔ جب تک یہ سلسلہ جاری ہے ان واقعات میں کمی نہیں دیکھی جا سکتی۔”
لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی شہزاد علی خان کئی سالوں سے صحافت سے وابسطہ ہیں اور اس طرح کے کیسوں پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل ایک ایسا سلسلہ ہے ہمارے سندھ میں جو بدنما داغ مانا جاتا ہے اور سالہاسال سے جاری ہے لیکن اس کو روکنے کی کبھی کسی نے سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔ سرکاری سطح پرسندھ حکومت نے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں لیکن وہ بھی سودمند ثابت نہیں ہو رہے۔
سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں مبں بھی غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اکثر و بیشتر سامنے آتے ہیں۔
شہزاد علی خان کے مطابق سندھ میں کاروکاری کی روایت کا خاتمہ ہونا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ یہ یہاں کے سماج کا ایک پختہ حصہ ہے، ” یہاں اس کو ختم کرنے کے لیے سرکاری سطح پر کوشش نہیں کی جا رہی ہے اور نہ ہی سماجی تنظیموں نے اس پر کوئی عملی کام کیا۔ غیرت کے نام پر قتل ایک سوچ ہے، ایک روایت ہے ایک اصول ہے اور ہمارے قبائلی علاقے اس اصول کو چھوڑنے یا توڑنے پرکسی صورت آمادہ نہیں ہیں۔ اگر اس پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اسے بے حد معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کبھی مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے اور کبھی ان کو شرمندہ کیا جاتا ہے۔ پھر یہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے اثر ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ وہ دونوں فریقین سے پیسے لیتے ہیں اور جو زیادہ پیسے دے اس کی مرضی کے مطابق کیس کا اندراج کرتے ہیں۔ اور ان میں بھی کوئی سو کیسوں میں سے صرف دو فیصد کو ہی سزا ہوتی ہے اس لیے یہاں قتل کرنا بے حد آسان ہے۔ ”
شہزاد علی کے مطابق یہاں کا قبائلی جرگہ نظام تصفیے کی آڑ میں کاروکاری کے فیصلے کرتا ہے جس میں کارو کاری کیے جانے والے افراد کے عزیز و اقارب مکمل طور پر شریک ہوتے ہیں۔ ان میں خواتین کو اکثر کاری قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے جبکہ مرد کو اس کے خاندان کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے جرمانہ کیا جاتا ہے جو پانچ سے آٹھ لاکھ روپے تک میں ہوتا ہے۔ جب تک اس طرح کے نظام موجود ہیں تب تک غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہو سکے گی۔