کراچی (جیوڈیسک) سندھ کی ساحلی پٹی پر بڑے پیمانے پر مینگروز (تیمر) کے جنگلات کاٹنے کا سلسلہ نہ رک سکا، جنگلات ختم ہونے سے مچھلی کی مختلف اقسام اور جھینگے کی افزائش میں کمی واقع ہونے لگی،مینگروز کے جنگلات دو لاکھ 28 ہزار 812 ہیکٹرز سے کم ہو کر 73 ہزار ہیکٹرز رقبے پر رہ گئے
اس کی پانچ اقسام ناپید ہوچکیں، صرف تین اقسام باقی ہیں تفصیلات کے مطابق سمندر کا فطری حسن کہلانے والے، سمندری طوفان کی تیز لہروں کو کنارے تک پہنچنے سے روکنے والے اور مچھلیوں کی نرسری کہلانے والے مینگروز کے جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ ڈیلٹا 52 ہزار 800 کلومیٹر پر مشتمل ہے اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا ڈیلٹا ہے
جہاں سب سے زیادہ مینگروز کے جنگلات ہیں، یہاں پر مینگروز کی آٹھ اقسام موجود تھیں لیکن حکومت اور محکمہ ماحولیات کی عدم دلچسپی کے باعث اب مینگروز کی صرف تین اقسام Avecenia, Ceripos Tagal, Marina Cornicututumباقی رہ گئی ہیں تاہم ان کی بھی بڑے پیمانے پر کٹائی جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق 1985ء میں مینگروز کے جنگلات دو لاکھ 28 ہزار 812 ہیکٹرز تھے جو اب اس وقت 73 ہزار 1 سو ہیکٹرز رہ گئے ہیں یعنی 29 برسوں میں 1 لاکھ 55 ہزار 811 ہیکٹرز رقبے پر موجود تیمر کے جنگلات کاٹ دیے گئے۔
انہیں ختم کرنے کے بعد سمندر کا پانی ٹھٹھہ، بدین اور کراچی کی ساحلی پٹی کی لاکھوں ہیکٹرز زمین کو اپنے نرغے میں لے چکا۔ ماہرین کے مطابق مینگروز ختم ہونے سے سمندری حیاتیات کو سخت خطرات لاحق ہیں کیوں کہ جھینگے اور مچھلیاں تیمر میں ہی افزائش حاصل کرتی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کیماڑی، کورنگی، ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ، بابا بھٹ، پورٹ قاسم، ٹھٹھہ اور بدین کے علاقوں میں بلا روک ٹوک مینگروز کی کٹائی جارہی ہے اور وہاں کھلے عام اسے فروخت کیا جارہا ہے، مینگروز کی لکڑی کراچی کی مختلف فیکٹریوں کے بوائلر چلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور اس سے ماچس کی تیلیاں بھی بنائی جاتی ہیں۔