جسٹس (ر) سعیدہ پروین، اکرام اللہ خان طارق ( سندھ سیکرٹریٹ میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں) اور انور زیب خان( پی آئی ڈی سی کے عہدیدار ہیں) اور صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی درگاہ کے خادم علی رضا کی دعوت پر اور ان سب احباب کے پر زور اصرار پر مجھے پہلی مرتبہ سندھ کے کلچر ڈے کی مناسبت سے منعقد ہونیوالی سرکاری و نیم سرکاری تقریبات میں شرکت کرنے کا شرف حاصل ہوا ھے جس پر میں ان کا تہہ دل سے مشکور بھی ہوں اور ان کی محبتوں کا مقروض بھی ہوں کہ ان کی بدولت مجھے ان پروقار تقریبات میں لب کشائی کا موقع ملا ھے۔ سندھ سے ہمارا روحانی رشتہ صدیوں پرانا ھے کیونکہ یہاں ہمارے روحانی پیشواوْں صوفی شاعروں اور بزرگوں کی آخری آرام گاہیں ہیں جنہوں نے اس دھرتی کو پسند فرماتے ہوئے یہاں مستقل قیام فرمایا ھے۔ ان میں حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ، حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ ،حضرت سچل سرمست رحمتہ اللہ علیہ ،حضرت سید صدرالدین رحمتہ اللہ علیہ ،شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ، سمیت بانیْ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی دختر نیک اختر بینظیر بھٹو کی درگاہیں سر فہرست ہیں۔ اور اس صوبہ یعنی صوبہ سندھ کی پہچان ہیں۔ اور مرجع الخلائق ہیں۔
سندھ کی تہذیب 7 ہزار سال پرانی ھے یہاں 5 ہزار سال پرانے موہنجودڑو اور ہڑپہ کی تہذیب کے آثار ابھی تک باقی ھیں۔ تاریخ سندھ کی جلد اول میں مولانا عبدالحلیم شرر یوں رقمطراز ہوتے ہیں کہ سمندر کا دیوتا سندھو جس کے نام سے یہ ملک شہرت حاصل کر رہا ھے اس نے کچھ ایسی بے پرواہی سے کام لیا کہ زمانہ روز بروز سندھ کو نقصان پہنچا کر اس کو مٹانے کی کوششوں میں لگا رہا مگر اس نے خبر تک نہ لی، سندھ کی مظلومیت کا قصہ خود اسی کے نام سے شروع ہوتا ھے شروعات میں سارا شمالی ہندوستان اسی نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ آریہ لوگ جب ہندوستان میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان تمام علاقوں پر اپنا تسلط جما لیا جن کو دریائے اٹک سیراب کیا کرتا تھا۔ اپنی فتوحات کا لوہا منوانے کیلئے ان علاقوں پر قبضہ کر کے انہوں نے اپنی حملہ آوری روک دی اور یہیں پہ سکونت پذیر ہو گئے۔ اور اسی وجہ سے یہ دریا آریہ لوگوں کا دریا کہلانے لگا۔ اور بعد میں انہوں نے اس دریا کا نام سندھو رکھ دیا تھا۔ سندھو سنسکرت زبان کا لفظ ھے جس کے معنی دریا کے ہیں۔ پھر جب وہ اس علاقہ میں پھیلے تو اٹک پنجاب کی پانچ ندیاں اور سرسوتی ندی دیکھی تو اس سرزمین کو سپنا سندھو (سات ندیاں) کہنے لگے۔ اور پھر ایرانیوں نے سندھو سے بدل کر اس کا نام سندھ رکھ دیا۔
اس عظیم خطے پر برصغیر کی پہلی مسلم ریاست 711 ء میں محمد بن قاسم نے قائم کی تھی۔ 1783 ء میں بلوچ حکمران سندھ کی سلطنت میں طاقتور حیثیت کے حامل ہو گئے۔لیکن 1839 ء میں انگریز برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے پلیٹ فارم سے کراچی جیسے شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اس وقت سندھ کے بعض ہندو وزراء نے برطانوی حکمرانوں کی حوصلہ افزائی کی یوں برطانوی حکمران برصغیر میں اپنی جڑیں مضبوط کرتے چلے گئے ۔ پھر انگریزوں نے مقامی حکومتوں کی مدد سے سندھ کو 1843 ء میں فتح کیا تھا اور اسے بمبئی پریذیڈینسی میں شامل کر دیا گیا تھا۔ 1876 ء میں بانیْ پاکستان بھی اسی سندھ کی دھرتی کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔جبکہ 1932 ء میں سندھ کو مکمل صوبے کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ اسی دوران بلوچی حکمرانوں نے انگریزوں کے ساتھ خوب ہٹ دھرمی برتی اور ان کی فوج کے سنٹرز کو لشکر کشی کے ذریعے نشانہ بنایا۔ جدوجہد آزادی کے دوران غلام محمد اور عبداللہ ھارون نے سندھ بھر میں مسلم لیگ کی سپورٹ کی اور انڈین نیشنل کانگریس سے ہندووْں کی اصلیت کی کلی چاک ہونے پر سندھ میں مسلم کمیونٹی نے ایک علاقائی اجلاس میں صوبے کی خود مختاری کی تحریک شروع کر دی تھی۔ 1947 ء میں پاکستان ایک نئی اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا جس کے باعث سندھ پاکستان کے حصہ میں آیا جس میں سندھ کے لوگوں کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کا بڑا عمل دخل شامل ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد لڑائی جھگڑے اور خون خرابے کے باعث تقریباً 1.1 ملین ہندو سندھی بھارت کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد دیگر صوبوں کی طرح سندھ کو بھی معاشی اور سیاسی و انتظامی انتشار کا سامنا کرنا پڑا مگر سندھ میں فوری طور پر معاشی سرگرمیاں مستحکم ہو گئیں اور سندھ کے بڑے شہر کراچی (جسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ھے) کو پاکستان کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ بعد ازاں 22 جولائی 1948 ء کو جب کراچی کو کیپٹل ایریا کے طور پر باقی سندھ سے علیحدہ کیا گیا تھا تو حیدر آباد کو سندھ کا دارالخلافہ بنا دیا گیا تھا جو تا حال برقرار ھے۔ اور 1952 ء میں سندھ کو مغلیہ سلطنت میں شامل کر دیا گیا تھا۔
سندھ کاسب سے بڑا اور اہم دریا دریائے سندھ ھے اورسندھ کی خوبصورتی اور سندھی کلچر کا ترجمان ھے اس دریا کی شروعات تبت کی ایک جھیل مانسرور کے مقام سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ دریا بھارت اور کشمیر سے گزرتا ہوا صوبہْ خیبر پختونخواہ میں داخل ہوتا ھے صوبہ KPK میں اسے دریائے اباسین بھی کہا جاتا ھے جس کے معنی ہیں دریائوں کا باپ۔ دریائے سندھ کو شیر دریاا بھی کہا جاتا ھے۔ صوبہ کے پی کے میں یہ دریا پہاڑوں سے گزرتا ہوا میدانی علاقوں میں اتر آتا ھے اور اس کے بعد صوبہ پنجاب سے ہوتا ہوا سندھ کی وادی میں داخل ہو جاتا ھے اور بالآخر کراچی کے قریب بحیرہْ عرب میں جا گرتا ھے۔ دریائے سندھ کی کل لمبائی 3,180 کلو میٹر ھے اور اسے سندھ سمیت پورے پاکستان کا سب سے بڑا دریا تسلیم کیا جاتا ھے۔
سندھی لوگ پیر پرست، مہمان نواز، محنتی اور جفاکش ہیں ان کی زبان میں ایک خاص قسم کی مٹھاس اور اپنائیت موجود ہوتی ھے جو ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ھے۔ اس مہمان نواز صوبے نے پاکستان کیلئے عظیم قربانیاں دیتے ہوئے اپنے بازو ہجرت کرنے والوں کیلئے وا کر دیئے اور اپنے بڑے بڑے شہر بھی ان کے نام کر دیئے تھے۔ لیکن سندھ کے دیہی علاقوں میں اکثریت آج بھی انتہائی پسماندہ ھے اور وڈیرہ شاہی نظام کے چنگل میں پھنسی ہوئی ھے اور ایک عرصہ سے یہاں چند قوم پرست تنظیمیں اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں جس سے سندھ کے چند بڑے شہروں میں امن و امان کی فضا سبوتاڑ ھے کراچی میں تو اب رینجرز نے حالات پر قابو پا لیا ھے جو قابل فخر بات ھے۔
صوبہْ سندھ میں دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ بر سر اقتدار رہی ہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی تو سندھ کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتی ھے مگر افسوس کہ انہوں نے سندھ کی ڈویلپمنٹ اور اسکی تعمیر و ترقی میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ جس کا عملی نمونہ ہمیں آج سندھ کے علاقہ تھر میں نظر آ رہا ھے۔اب سندھی عوام کی نگاہیں موجودہ حکومت پر ہیں اور وہ پر امید بھی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان سندھ کی حالت ضرور بدلیں گے۔ ٍ سندھ کا یوم ثقافت ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار کے روز انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ھے اسے ایکتا دن( یکجہتی کا دن) بھی کہا جاتا ھے اور سندھی کلچر سے منسوبہ یہ تقریبات پورا عشرہ سندھ بھر میں جاری رہتی ہیں جس کا مقصد سندھ کی ثقافت کے بارے میں پوری دنیا کو آگاہ کرنا ھے اور لوگوں کو امن کا پیام دینا ھے۔ ثقافت کسی بھی قوم اور علاقہ کی پہچان اور ترجمان ہوا کرتی ھے سندھ کی ثقافت میں سندھی ٹوپی اور سندھی اجرک سر فہرست ہیں۔ صدیوں پرانی ثقافت کے حامل صوبہ سندھ کے لوگ امن پسند اور محبت کے سفیر ہیں۔ باہمی بھائی چارہ اخوت اور خدمت خلق اور وفاداری سندھیوں کا طرہْ امتیازہے یہاں کی ثقافت میں صوفیائے کرام نے مزید رنگینیاں بھر دی ہیں اور ان کے کلام کو پوری دنیا میں سنا جاتا ھے اور پسند بھی کیا جاتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ سندھی اپنا ثقافتی دن بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ ان تقریبات میں میری شمولیت کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔ سندھی صحافیوں شاعروں ادیبوں اور میرے عقیدت مندوں نے جو عزت بخشی وہ صدیوں یاد رہے گی۔اور میری زندگی کی ڈائری میں سنہری حروف کے ساتھ نمایاں رہے گی۔