یحییٰ اور ایوب کے سائے میں پیدا ہونے والے سیاست دان جس نے اپنی ذات کی خاطر وطن کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا ، اکثریت ہونے کے باوجود مشرقی پاکستان کو جدا کردیا اور اپنے اقتدار کیلئے سازشوں کا بہترین مہرہ ثابت ہوا، ساٹھ اور ستر کی دھائی میں پاکستان کے خلاف اندرونی و بیرونی قوتوں نے جس قدر مکارانہ ،عیارانہ اور منافقانہ انداز اپنائے اس کے منفی اثرات آج پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں ،یہ ایسا ہی ہے جیساکہ امریکہ نے جاپان پر ایٹمی حملے کرکے برسوں تک جاپان کے ان شہروں پر ایٹمی اثرات جاری رہے جس کو آج تک تمام جاپانی بھلا نہیں سکتے یہی حال پاکستان کیساتھ بھی ہوا مانا کہ یہاں ایٹمی جنگ تو نہیں ہوئی مگر یہاں معاشی جنگ کے ذریعے تواتل کیساتھ پاکستان کی جڑوں کو کمزور کرنے کیلئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا، ذوالفقار علی بھٹو نے اہلیت، قابلیت، مساوات، عدل و انصاف کا جس قدر جنازہ نکالا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، بات یہاں ختم نہیں ہوتی یہودی، بھارتی، امریکی ،برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے ایجنٹوں بلخصوص قادیانیوں اورکمیونسٹ ذہن کے لوگوں کے ذریعے اپنے مذموم عظام کو پائے تکمیل تک پہنچایا، پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ یہاں ساٹھ اور ستر کی دھائی کے بعد سے اچھے لیڈرنصیب نہیں ہوئے، جو بھی آیا اپنی ذات کو ریاست پاکستان ،ملک پاکستان اور عوام سے بھی زیادہ اپنی ذات اور اپنے خاندان کو فوقیت دیتا رہا اسی سبب ادارے بھی تباہ حالی کا شکار ہوئے ،سوچی سمجھی سکیم کے تحت بیرونی طاقتوں نے پاکستان کو تباہی کے اس دھارے پر لاکھڑا کردیا ،اس معاشی بدحالی کے براہ راست ذمہ داروں میں سب سے زیادہ پی پی پی اور پی ایم ایل این سیاسی جماعت ہیں جبکہ ان کے سائے میں ذیلی سیاسی جماعتوں ،بیوروکریٹس نے بھی خوب لوٹ مار ،بدعنوانی کی تمام حدیں پار کردیں۔۔۔
معزز قارئین!! موجودہ دور میں سپریم کورٹ ،نیب اور ایف آئی اے نے حکمرانوں کے کالے کرتوت کے کلاف ایکشن لینا شروع کردیا ہے، حالیہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سندھ حکومت کے خلاف رپورٹ جاری کی جس کی تفصیل اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔حکومت سندھ کے اکاؤنٹ سے آٹھ سو چھیاسٹھ اعشاریہ ایک بلین روپے کی زکوٰۃ غائب”آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ سن دو ہزار سترہ ،اٹھارہ جو چند دن قبل آئین کے آرٹیکل ایک سو اکہتر کے تحت صدر مملکت کو پیش کی گئی اس کے مطابق سندھ حکومت نے کرپشن میں اپنے ہی سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے سال سن دو ہزار سولہ ،سترہ میں دو سو باہتر ارب اور سن دو ہزار اٹھارہ میں دو سو بیانوے ارب کی خوردبرد کی ،سندھ کے وزراء نے زکواۃ ،معذور افراد کی امدادی رقم یہاں تک کے یتیموں کے پیسے بھی نہیں چھوڑےاور قریباً ایک ارب نوے کروڑ روپے کی زکوٰۃ کی رقم خرد برد کی گئی ہے مستحقین زکوٰۃ کے ایک سو سترہ کروڑ روپے سندھ بینک نے تقسیم کرنے کی بجائےچار ماہ تک سیونگ اکاؤنٹ میں رکھ کر منافع کمایا ،بدین، ٹھٹھہ، لاڑکانہ، حیدرآباد اور دیگر اضلاع میں زکوٰۃ کمیٹیاں دوکروڑ روپے کے اخراجات کا حساب نہیں دے سکیں۔
مستحق خاندانوں کے نام پر جاری دو کروڑ پندرہ لاکھ روپے اور جہیز کی مد میںاکیاونوے لاکھ روپے خورد برد کیئے گئے،آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے تین بڑے اسپتال زکوٰۃ فنڈز کےچھ کروڑ روپے سے ٹینڈر کے بغیر خریدی گئی ادویات کا کوئی جواب نہیں دے سکے جبکہ دو نجی اسپتالوں نے زکوٰ ۃ فنڈز سے ملنے والے تین کروڑ روپے مستحقین پر خرچ کرنے کی بجائے اسپتال کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے اور نوشہروفیروز میںزکوٰ ۃ کمیٹی نے بغیر دستاویز چھیاسی لاکھ روپے کی مشکوک ادائیگیاں کیں ،سندھ کی بےلگام افسرشاہی نے مزارات سے ہونے والی آمدنی پربھی جی بھر کے ہاتھ صاف کیا ہےعوامی وسائل میں چوری اور فراڈ کے ذریعےحکومت کو نو ارب سے زائد کا ٹیکہ لگایاگیا، ٹیکس وصولی کےمعاملات میں گھپلےبازی کرکے انیس ارب سے زائد کی رقم قومی خزانے سے اڑالی گئی، آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اختیارات کے ناجائز استعمال اور سرکاری زمین کے گھپلوں میں اکہتر ارب سے زائد کی رقم خرد برد کی گئی۔
عوامی وسائل میں چوری اور فراڈ کے ذریعےحکومت کو نو ارب سے زائد کا ٹیکہ لگایاگیا، ٹیکس وصولی کےمعاملات میں گھپلےبازی کرکے انیس ارب سے زائد کی رقم قومی خزانے سے اڑالی گئی، آڈٹ رپورٹ کے مطابق خرچ کی گئی ایک سو چودہ ارب سے زائد کی رقم کا کوئی ریکارڈ سرے سے موجود ہی نہیں،آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں وزیر اعلی ہاؤس سندھ میں اربوں روپے کے فنڈز میں خرد برد کا انکشاف بھی کیا گیا ہے،وزیر اعلیٰ ہاؤس نے سال سن دو ہزار سولہ ،سترہ کیلئے مجموعی طور پر گیارہ ارب اڑتالیس کروڑ روپے سے زائد کابجٹ مختص کیا،رپورٹ کے مطابق مختص رقم میں سے پانچ ارب اٹھاون کرو ڑ سات لاکھ اٹھارہ ہزار روپے خرچ ہو سکے،بجٹ کی باقی رہ جانے والے تیرالیس کروڑ تیریپن لاکھ تیرہ ہزار روپے کا ریکارڈ ہی موجود ہی نہیں، وزیر اعلیٰ ہاؤس سندھ کے ایک سو اٹھہتر اعشاریہ چھ سو چھیاسی ملین روپے کے ریکارڈ پر بھی آڈیٹر جنرل نے شکوک ظاہر کیے ہیں، ایک سو اٹھہتر اعشاریہ چھیاسی ملین روپے تربیت حاصل کرنے والے یوتھ پروگرام کے لیے گرانٹ کے طور پر سال سن دو ہزار سولہ ،سترہ میں جاری کیئے، ایک سو اٹھہتتر ملین روپے تعمیر بینک سے جاری کیئے گئے جس کی رسید بھی جمع نہ کرائی گئی،مارچ سن دو ہزار سولہ میں جاری کیئے گئے پندرہ ملین روپے کا بھی ریکارڈ مہیا نہ کیا گیا۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار دو سے دو ہزار سولہ تک ایک ہزار ملین روپے پیپلز ہاؤسنگ سیل کے لیے جاری کیئے گئے اور انکا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں، بینظیر ہاؤسنگ سیل کیلئے دوسری بار چھبیس اعشاریہ چارسو اٹھاون ملین روپے جاری کیئے گئے اور اس رقم سے اضافی اخراجات بھی کیئے گئے، چونتیس اعشاریہ دو سو اناسی ملین روپے گاڑیوں کی مرمت کے لیے جاری کیئے گئے جن کا ریکارڈ غائب ہے، تیئس ہزار اعشاریہ تین سو اننچاس ملین کی چار گاڑیاں فنڈ سے خریدی گئیں جن میں سے فارچیونرگاڑیاں جی ایس ای پانچ سو ساٹھ اور پانچ سو اکسٹھ شامل ہیں جبکہ دو کلٹس جی ایس ڈی پانچ سو پچھہتر اور پانچ سو چھہتر بھی خریدی گئیں،آڈٹ رپورٹ کے مطابق خیرپور کے دیہہ لقمان میں سترہ ہزار سات سو نواعشاریہ نو سو باسٹھ ملین روپے کے ڈیویلپمنٹ فنڈ جاری کیئے گئے جس میں ٹھیکیدار بنام ریلینٹ ٹریڈ لنک نے کام بھی مکمل نہ کیا، تیرہ اعشاریہ صفر چھتیس ملین روپے سے مشینری، فرنیچر مرمت اور ہارڈ ویئر کا سامان خریدا گیا جبکہ صوبہ سندھ سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو کرپشن میں سال دو ہزار سترہ تا اٹھارہ میں ملکی حالات بدتر پائے گئے،آڈیٹر جنرل نے رپورٹ جو کہ آئین کے آرٹیکل ایک سو اکہتر کے تحت صدر مملکت کو پیش کی وہ اس بات کی تصدیق کی کہ مجموعی طور پرآٹھ سو اتھائیس کھرب چھہتر ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں جبکہ صوبوں کی سطح پر گیارہ کھرب چھپن ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے کہ ساٹھ وفاقی وزارتوں اور اداروں میں سے چوالیس نے اپنے اوپر کوئی کنٹرول نہیں رکھا، چار اعشاریہ انہتر ارب روپے کی خطیر رقم ان سے دوبارہ وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروائے گئی۔
انتالیس ایسے ادارے ہیں جن کے اخراجات پر کوئی کنٹرول نہیں جو کہ شرم کی بات ہے، ستتر اعشاریہ پانچ کھرب روپے بیرونی ممالک میں سفر اور سفارت خانوں پر کئے گئے، تین اعشاریہ ایک بلین روپے کو بغیر سوچے سمجھے خرچ کئے گئے، آڈیٹر جنرل کو اس بات کا بھی قلق ہے کہ مختلف وزارتوں اور محکموں نے پانچ اعشاریہ ایک سو نو ارب روپے بچ جانے کے باوجود خزانے میں جمع نہیں کروائے اور ان کا حساب کتاب ہی نہیں ہے۔۔۔۔ معزز قارئین!!مندرجہ بالا رپورٹ چند ایک سال پر محیط ہے ان نام نہاد جمہوری ٹھیکیداروں نے ملک کے تمام صوبوں کا دیوالیہ نکالنےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہی سیاستدان فوج کو برا بھلا کہتے ہیں اور اپنے جرائم کو چھپانے کیلئے عوام کو مسلسل گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں ، کہیں صوبائی تو کہیں لسانی کارڈ کھیلنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں لیکن اب ان کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی کیونکہ دور بہت تبدیل ہوچکا ہے ،یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ گورنر سندھ کی مخالفت کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ اب وقت تبدیل ہوچکا ہے ،اس سائنسٹیفک دور میں نہ جرم چھپ سکتا ہے اور نہ ہی مجرم فرار ہوسکتا ہے۔
سندھ سمیت پاکستان کے تمام صوبوں کی عوام ان نام نہاد برسوں سے جاری سیاستدانوں کے سمجھ چکے ہیں اب ادارے تو ادارے عوام بھی ان کا سخت احتساب کرینگے رہی بات نظام اور قانون کی تو وہ بہت جلد بدلنے جارہا ہے کیونکہ آٹھارہویں ترمیم ہی اسی لیئے کی گئی تھی کہ اس کے ذریعے خود کو بچایا جائے لیکن جب قدرت کی پکڑ میں آتے ہیں تو تمام تر ترکیبیں زائل ہوجاتی ہیں ان سب کا خاتمہ ہی پاکستان کی بقا و سلامتی کی ضمانت ہے جب تک یہ وراثتی سیاستدان ہیں اس وقت تک عوام چین سے جی نہیں سکتے ، پاکستان میں معاشی بد حالی کے اصل ذمہ دار یہ تمام سیاستدان ہیں جنھوں نے برسوں سے اقتدار سنبھالا، افواج پاکستان اور تمام چیف جسٹس صاحبان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی بقا خوشحالی کیلئے ان سب کا سخت سے سخت احتساب کریں اور لوٹی ہوئی دولت کے حصول کیلئے پاناما اور وکی لیکس میں نامزد افراد کو قید سلاسل کرکے قومی خذانے کو نقصان پہنچانے والی تمام رقم بشمول جرمانہ لیا جائے، تاکہ عوام خوشحالی کی زندگی بسر کرسکیں کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک اسلامی ریاست بنائی تھی اور اسے اسلامی ریاست ہی بنانا ہے۔۔۔۔!!اللہ پاکستان کو بدمعاش مافیا سے محفوظ رکھے۔۔۔۔ آمین ثما آمین ۔۔۔۔پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!!