سندھ (اصل میڈیا ڈیسک) وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی عزیر بلوچ سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ نامکمل ہے، چیف جسٹس اس کا از خود نوٹس لیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے علی زیدی نے کہا کہ جو رپورٹ سندھ حکومت نے شائع کی اس میں سیاسی تعلقات کا ذکر موجود نہیں، سندھ حکومت نے 37 صفحات کی جے آئی ٹی جاری کی جبکہ اصل رپورٹ 43 صفحات پر مشتمل ہے جس میں صاف لکھا ہے کہ پیپلزپارٹی رہنماؤں کے کہنے پر عزیر بلوچ نے قتل کیے۔
انہوں نےچیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی کہ ملک کے سب سے بڑے شہرمیں جوقتل وغارت ہوئی اس پر 184 تھری کے تحت ازخود نوٹس لیں۔
علی زیدی نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ اس معاملے پر اُن کے ساتھ ہیں۔
علی زیدی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹس میں ملزمان نے لوگوں کو مارنے کا تو اعتراف کیا لیکن جرم کس کے کہنے پر کیا یہ نہیں سامنے آیا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے جو رپورٹ شائع نہیں کی، اس میں سیاسی تعلقات کا ذکر موجود ہے، اصل رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ پیپلزپارٹی رہنماؤں کے کہنے پر قتل کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ 43 صفحات کی ہے جس میں فریال تالپور، عبدالقادر پٹیل، شرجیل میمن، یوسف بلوچ، ذوالفقار مرزا اور نثار مورائی کا نام ہے۔
علی زیدی نے کہا کہ جو رپورٹ ریلیز کی گئی ہے، اس میں لکھا ہے کہ عزیربلوچ نے جلیل اور رزاق کمانڈو کے بھائی کو مارا، جس رپورٹ پر اداروں کے دستخط ہیں اس رپورٹ میں ہے کہ 2011 میں عبدالقادرپٹیل نے جلیل کے قتل کی ذمہ داری دی۔
وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ ذوالفقار مرزا کے پارٹی چھوڑنے کے بعد شرجیل میمن اور ٹپی ان سے کام کراتے تھے۔
علی زیدی نے مزید کہا کہ سندھ حکومت کی رپورٹ میں چیزیں ’مسنگ‘ ہیں، ضرب عضب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف تھا لیکن اب بہت سارے سہولت کار اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے چیف جسٹس سے معاملے پر از خود نوٹس لینے کی درخواست کی اور کہا کہ چیف جسٹس مجھے بھی بلائیں، تمام دستخط کرنے والوں کو بلائیں اور کارروائی کریں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سندھ حکومت نے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ، سابق چیئرمین فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی نثار مورائی اور بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس جاری کیں تھیں جن میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔