کراچی (جیوڈیسک) سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے غیر قانونی حراست میں لیے گئے شہریوں کے متعلق متعدد درخواستوں کی سماعت کی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو 22 مئی کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مسمات معراج بانو نے ہوم سیکریٹری سندھ، ڈائریکٹرجنرل رینجرز سندھ ، ایڈیشنل آئی جی کراچی ، ڈی آئی جی سائوتھ ، ایس ایچ او نبی بخش ، انچارج سی آئی ڈی اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ اس کا بیٹا سہیل الحسن چشتی رنچھوڑ لائن میں کپڑے کا کاروبار کرتا تھا، اسے 25 اپریل کو رینجرز اور سادہ کپڑوںمیں ملبوس اہلکار اپنے ساتھ لے گئے۔ درخواست گزار کے مطابق اس نے اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رجوع کیا ،تاہم پولیس نے اس کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا اور رینجرز کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے بھی انکار کر دیا، درخواست گزار نے موقف اختیارکیا ہے کہ اگر اس کے بیٹے کے خلاف کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔
درخواست میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کے بیٹے کی زندگی خطرے میں ہے اس لیے عدالت عالیہ مدعا علیہان کو ہدایت کی جائے کہ وہ اس کے بیٹے کو عدالت میں پیش کریں، محمد اقبال نے بھی آرام باغ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سمیت پولیس اور رینجرز کے سینئر افسران کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ اس کے بیٹے کو 26 اپریل سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے اور ابھی تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا، غیر قانونی حراست میں اس کی زندگی کو خطرہ ہے، اس لیے مدعا علیہان کو ہدایت کی جائے کہ وہ درخواست گزارکے بیٹے کو اس عدالت میں پیش کریں۔