اسلام آباد (جیوڈیسک) ایگزیکٹ جعلی ڈگری ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو ملزمان کی ضمانت منسوخی کا فیصلہ 2 ہفتوں میں کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ ساتھ سندھ ہائیکورٹ کو ایگزیکٹ مقدمات کا فیصلہ 15 دن جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو 3 ہفتوں میں مقدمے کا فیصلہ سنانے کی ہدایت کردی۔
دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب شیخ اور دیگر 6 ملزمان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم اس یقین دہانی کے بعد واپس لے لیا کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔
یاد رہے کہ مذکورہ کیس کی 7 فروری کو ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کے تمام ملزمان کو 9 فروری کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر جعلی ڈگریوں کی خبر میں صداقت ہے تو کوئی نہیں بچ پائے گا، سب کا نام ای سی ایل میں ڈالیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
آج سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) بشیر میمن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ ‘کیا ایگزیکٹ ایک کمپنی ہے؟ اور یہ کب سے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ ہے؟’
بشیر میمن نے جواب دیا کہ ‘یہ کمپنی جولائی 2006 سے پہلے سے رجسٹرڈ ہے اور اس کا ہیڈ آفس خیابان اقبال، کراچی میں ہے’۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ‘ایگزیکٹ کا بزنس کیا ہے؟’
ڈی جی ایف آئی نے جواب دیا کہ ‘سافٹ وئیر کی ایکسپورٹ کا بزنس ظاہر کیا گیا ہے، ایگزیکٹ کے 10 بزنس یونٹس ہیں۔’
بشیر میمن نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ‘ایگزیکٹ کی 330 یونیورسٹیاں تھیں اور اس کا 70فیصد ریونیو آن لائن یونیورسٹیوں سے آتا ہے’۔
ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ‘تجربہ پر ایگزیکٹ والی ڈگری ایک گھنٹے میں مل جاتی تھی’۔
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘میرا قانون کا تجربہ ہے، کیا مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے؟’
بشیر میمن نے جواب دیا کہ ‘تجربے کی بنیاد پر آپ کو قانون اور انگلش کی ڈگری مل سکتی ہے۔’
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ‘انگلش میری اتنی اچھی نہیں ہے’۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کہ کیا ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے الحاق ہے؟
ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ‘ایگزیکٹ کا اپنا پلیٹ فارم ہے جو ایکریڈیٹیشن بھی کرتا ہے’۔
جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ‘ایگزیکٹ والے ایکریڈیٹیشن کیسے کر سکتے ہیں؟’
بشیر میمن نے جواب دیا کہ ‘جناب ایگزیکٹ نے ویب پیج بنا کر ایکریڈیٹیشن شروع کردی۔’
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘یونیورسٹیاں تو کسی قانون کے تحت بنتی ہیں۔’
ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ‘یہ کام 2006 سے ہو رہا ہے، 2006 سے 2015 تک یہ کاروبار ہوتا رہا، اگر یہ درست ہے تو لوگوں سے فراڈ ہوا’۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ‘جب میڈیا میں خبریں آئیں تو ایف آئی اے نے معاملات کو دیکھنا شروع کیا، اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے ایف آئی اے کیا کر سکتا ہے؟’
ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ‘اسلام آباد کے مقدمے میں ملزم بری ہو چکے ہیں’۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘کیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے نے ثبوت پیش کیے؟’
بشیر میمن نے جواب دیا کہ ‘اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل زیر التوا ہے’۔
سماعت کے دوران رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ اپیل کو 22 فروری کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘کس جج کے سامنے کیس لگایا گیا ہے؟’
رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب دیا کہ ‘جسٹس اطہر من اللہ ایگزیکٹ کیس سنیں گے۔’
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘جسٹس اطہرمن اللہ کے ساتھ جسٹس گل حسن کوشامل کریں۔’
ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے ہدایت کی کہ ‘اسلام آباد ہائی کورٹ تین ہفتوں میں ایگزیکٹ کیس کا فیصلہ کرے۔’
اس موقع پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ ‘سندھ ہائی کورٹ میں مقدمات زیرالتوا کیوں ہیں؟’
ساتھ ہی انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کو آئندہ ہفتے فوری بنچ تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ ایگزیکٹ مقدمات کا 15 دن میں فیصلہ دے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘عوام میں افواہیں تھیں کہ اسلام آباد عدالت کے جج نے ضمانت کے پیسے لیے، اس جج کا نام کیا ہے اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہورہی ہے؟’
رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے آگاہ کیا کہ ‘جج کا نام پرویز القادر میمن ہے’۔
جس پر چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ جج تو آپ کی برادری کانکل آیا’۔
بشیر میمن نے جواب دیا کہ ‘یہ میرا عزیز ہے لیکن میں شرمندگی محسوس کرتاہوں’۔
سماعت کے دوران رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ کے سپریم کورٹ میں پیش نہ ہونے پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘عدالتی حکم کے باوجود رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ خود کیوں تشریف نہیں لائے؟ یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔’
جس کے بعد سپریم کورٹ نے رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘پیر تک رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ وضاحت دیں کہ عدالتی حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی’۔
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ‘ہمارا مرکزی کیس کراچی میں ہے۔’
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ‘کیا اس مقدمے میں سارے ملزم ضمانت پر ہیں؟’
ساتھ ہی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ‘ملزمان تعاون نہیں کرتے تو استغاثہ ضمانت منسوخی کی درخواست دے اور ٹرائل کورٹ 2 ہفتوں میں ضمانت منسوخی کافیصلہ کرے۔’
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ‘ماتحت عدلیہ اور ہائی کورٹ سے ملزمان کاعدم تعاون برداشت نہیں ہوگا۔’
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘یہ میرے ملک کے لیے شرمندگی کا معاملہ ہے، اپنی قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا’۔
دنیا بھر میں جعلی ڈگری کا کاروبار کرنے والی کمپنی ایگزیکٹ کا انکشاف 18 مئی 2015 کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے کیا تھا۔
ایگزیکٹ کا جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل دنیا بھر میں پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنا کیونکہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری، پیسے چھاپنے اور لوگوں کو بلیک میل کرنے کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا چکی تھی۔
کمپنی کا اسکینڈل سامنے آنے پر حکومت، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں نے مل کر بھرپور کارروائی کی اور کمپنی کے مالک شعیب شیخ، وقاص عتیق سمیت جعلی ڈگری کا دھندا کرنے والے کئی افراد حراست میں لے لیے گئے۔
عالمی جریدوں اور ٹی وی چینلز نے اس معاملے پر کڑی تنقید کی جبکہ امریکا میں فرنٹ مین پکڑا گیا جسے اعتراف جرم اور بھانڈا پھوڑنے کے بعد سزا ہوئی۔
جعلی ڈگری اسکینڈل کے خلاف پاکستان میں کراچی اور اسلام آباد میں مقدمات درج ہوئے، کارروائیاں تیز کی گئیں مگر پھر کارروائی کی راہ میں چند پراسرار موڑ آئے اور معاملہ خفیہ قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔
بعدازاں ایگزیکٹ کی جعلی ڈگریوں سے متعلق رپورٹس دوبارہ سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا۔