اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے سندھ پولیس کیلیے اسلحہ خریداری کے مقدمے میں معاہدے کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے ہیں اورکہا ہے کہ بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کا ٹھیکہ ایک ارب 23 کروڑ میں دیا گیا اورکوئی اشتہار تک نہیں دیا گیا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں فل بینچ نے اسلحہ خریداری کیس کی سماعت کی جس میں اسلحے کی خریداری کیلئے ہونے والے معاہدے کی حیثیت کا جائزہ لیا گیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ احمد حسین نے موقف اختیار کیا کہ پولیس خود مختار ادارہ نہیں، اس لیے معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ عدالت نے سندھ پولیس کے وکیل عرفان قادرکی سرزنش کی جس کے بعد سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے۔
جسٹس جواد نے استفسار کیا کہ سندھ پولیس حکومت نہیں اس نے معاہدہ کیسے کیا۔ فاروق نائیک نے کہاکہ ٹھیکہ دینے سے قبل سمری بھیجی گئی، وزیر اعلیٰ نے منظوری دی، وزارت خزانہ نے فنڈ مختص کیے، ایف بی آر سے بھی منظوری لی گئی۔
جسٹس جواد نے کہاکہ یہ عوام کا پیسہ تھا کس طرح ادھر ادھرکیا جا سکتا ہے، فاروق نائیک نے کہاکہ معاہدہ ابھی حتمی نہیں صرف شرائط و ضوابط طے ہوئے ہیں رقم ادا نہیں کی گئی، عدالت چاہے تو غیر قانونی قرار دیدے، دوبارہ قانونی معاہدہ کرلیں گے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ یہ اچھی بات ہے کہ رقم ابھی تک ادا نہیں کی گئی۔
جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیے کہ بدعنوانی کا معاملہ ہے، سوالات کے جواب تو دینا پڑیںگے۔