پولیس کا ہے فرض لوٹ مار آپکی۔۔۔

Sindh police

Sindh police

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
سندھ پولیس کے بارے میں یہ بات شہادتوں کے ساتھ موجود ہے کہ یہ ادارہ گذشتہ ادوارمیں مخوص سیای گروہوں کی بندر بانٹ اوراپنے حلف برداروں کی وجہ سے عوامی سے زیادہ سیاسی ادارہ بنا دیا گیا تھا۔ جس میں سیاسی قیادتوں کا اپنا مفاد تھا جس کی بنیاد پر پریزمشرف اور گذ شتہ پیپلز پارٹی کے ادوار میں بھر پور انداز میں اپنے اپنے سیاسی مفادات کے پیشِ نظر دونوں جانب سےہزاروں کارکنوں کو پولیس کی سیاسی نوکریاں دے دی گیئں تھیں۔اور انکے سیاسی پولیس ونگز نے جو کھیل کھلے وہ بھی پوری قوم کو ازبر ہیں۔

جن کی وجہ سے ہم پے در پے قیمتی جانیں گنواتے رہے اور اپک سیاسی کھیل جاری رکھتے رہے۔اس کھیلمیں گذشتہ دور کے تماماسٹیکہولڈرز شاملرہے۔جس کیبنائ پر سیاسی کھیل ان دورانیوں میں بلا کسیرکاوٹ جاری رہا ہزاروں لوگ موت کی نیند سلا دیئے گئے اور ان کے قاتلوں کا کہیں دور دور تک سے سراغ دلانے کی کوششیں نہکی گیئں۔لاکھوں لوگوں کا سرمایہ چھین لیا گیا۔سینکڑوں گھر ویران کر دیئے گئے مگر ان تمام معاملات کا کوئی بھی تو پُرسانِ حال نہ تھا۔سیاسی حکومت کی کروٹ تبدیل تو ہوئی مگر ملک میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی اور حکومت کے لوگ اقتدار کے نشے کو مضبوط رکھنے کے لئے کریمنلز کے خلاف کوئی اقدام اٹھانے سے خوف ذدہ رہے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

ملک کے حالات نے پلٹا کھایا اور اور اب وہ فوجی ہی جو ملک میں اقتدار کے لالچ کی وجہ سے بعض نا عاقبت اندیش جنرلزکے ساتھ مل کر ادارےکوبد نامی کے گڑھے پر لا چھوڑاتھا۔ انہی میں سے ایکمردِمیدان نے ضرِ عضب شروع کر کے اپنی اور اپنے ادارے کی ایسی ساکھ بحال کی جس کو پاکستان کی نسلیں یاد رکھیں گی۔مگرہماری پولیس کے مزاج میں پھر بھی ذرہ برابرکوئی تبدیلی نہ آئی اورمعاملات آج بھی جوں کے توں الجھائو کا شکارچل رہے ہیں۔کراچی بد امنی کیس کے حوالے سے سُپریم کورٹ کی کاروائی میں پولیس مسلسل اپنی بری کار کردگی کے حوالے سے خود ہی بد نامی مول لینے پر اُتر آئی ہے۔اس کے ایسے ایسے گناہ کھل کر قوم کے سامنے آرہے ہیں جس سے ہر باغیرت اور با ضمیرشہری کا سر شرم سے جُھک جاتاہے۔تفصیلات کے تحت چیف جسٹس سُپریم کورٹ انور ظہیر جمالی،جسٹس امیرہانی مسلم،جسٹس شیخ عظمت سعید،جسٹس فیصل عرب اورجسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل لاجر بینچ نےکراچی رجسٹری کیس میں پیر کو کراچی بد امنی کیس کی سماعت کی۔جس میں پولیس کی کار کرد گی کی شکل میں ایک حیرت انگیز اصطلاح سامنے آئی ہے”شورٹ ٹرم اغوا برائے تاوان”اغوا برائے تاوان کے کیسزا میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔یہ کھیل کوئی عام شہری نہیں کھیل رہا ہے۔

بلکہ سندھ پولیس کا ایک خاصہ بڑا ٹولہ اورونگ یہ کھیل کیل رہا ہے۔ ایس پی عامرفاروقی کی انکوئری رپورٹ جو انہوں نے سُپریم کورٹ میں پیش کی ہے۔جس کے تحت 47 پولیس آفیسرز واہلکا رکاراس کھنائونے کھیل کا حصہ ہیں اوریہسب کچھ موجودہآئی جی کے سامنے ہو رہا ہے۔جو معصوماناطور پر اس کی ۤگاہی سے ناوقفیت کا دعویٰ سپریمکورٹ کے لاجر بینچ کے رو برو کرتے ہوے بھی نہیں شرمائے ہیں۔ پولیس اہکاروں کا ایک عام طریقہ کاریہ ہے کہ عام شریف اور صاحبِ حیثیت شہریوں کومختصر عرصہ کے لئے(شورٹ ٹرم اغوا برائے تاوان) جس میں پولیس خود برئے راست ملوث ہے۔جس کی وجہ سے اغوا برائے تاوان کے مقدمات سامنے نہیں آرہے ہیں۔

پولیس نے یہ کام اب خود کرنا شروع کر دیا ہے کہ اس کام میں خاصی رقم بغیر کسی بڑی جدو جہد کے ملجاتی ہے۔اس مقصد کے لئے پولیس شریف لوگوں کے ذریعے ہر روز اُٹھا کر لے جایا جاتارہا ہے۔اور مختصر مد ت میں دھمکیوں کے ذریعے رقم لے ان لوگوں کو چھوڑ دیا جاتا رہا ہے۔جس کی سُپریم کورٹ میں مسلسل شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں۔جسٹس امیر ہانی مسلم نےآئی جی سندھ غلام حیدر جمالی سے کہا کہ آپکے علم میں نہیں کہ پولیس یہ وارداتیں کر رہی ہے؟ایس ایس پی عامرفاروقی کی رپورٹ آپ کے پاس نہیں ہے؟جس پرآئی جی سندھ نے نفی میں جواب دیا تو جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ آپ کو سب معلوم ہے۔آپ نے پولیس اہلکاروں کے خلاف اغوا برائے تاوان کی ایف آئی آر درج کی؟ایک شخص کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جایا گیااور رقم وصول کی گئی بعد میں ڈی آئی جی نے رقم واپس کی۔ لیکن ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ مذکورہ پولیس اہلکار آئی جی کے بندے ہیں۔

ایک اور اہم انکشاف ہمارے ایک جاننے والے سی آئی ڈی پولس کے اہلکارنے راقم کے سامنے کیا۔جس کی کراچی میں اینٹی کار لفٹنگ میں ڈیوٹی رہی ہے۔ نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ کراچی میں جسقدر بھی کار لفٹنگ ہوتی ہے اُس میں 90فیصد وارد اتیں پولس کے بنائے ہوے گینگ کرتے ہیں۔جس میں اگر فرض کریں پانچ یا6 کاریں چھینی گئی ہیں تو دوکی بازیابی دکھا کے پریس کے سامنے پیش کر کے واہ واہ کرانے کے بعدانعام بھی بٹور لیا جاتا ہے۔جس سے پریس اور میڈیا پر بھی ان کی واہ واہ ہوجاتی ہےاور باقی مال بھی ہضم کر لیاجاتا ہے۔ یہ رپورٹیں عوام کی آنکھیں کھولد ینے کے لئے کافی ہیں۔کیونکہ یہاں کی پولس پولیٹی سائزڈ ہے۔جو ہز ماسٹرز وائس کی غلام ہے۔جس کیلئےیہ نعرہ بہت مناسبت رکھتا ہے “پولیس کا ہے فرض لُوٹ مار آپ کی

Dr. Shabir Ahmed Khurshid

Dr. Shabir Ahmed Khurshid

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbirahmedkarachi@gmail.com