سندھ کی 17 سرکاری جامعات کو 6 ارب روپے کا مالی خسارہ

Universities

Universities

کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) سندھ کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز یونیورسٹیز کو درپیش بدترین مالی بحران اور اربوں روپے کی بجٹ کٹوتی کے معاملے پر پہلی بار ہم آواز ہوکر میدان میں آ گئے ہیں۔

سندھ کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز یونیورسٹیز نے مشترکہ طور پر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو علیٰحدہ علیٰحدہ خطوط جاری کر دیے ہیں جس میں گزشتہ دو مالی سال کے بجٹ میں کٹوتی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان جامعات کو قائم رکھنے اور انھیں مزید چلانے کے لیے بجٹ میں کئی ارب روپے کے فوری اضافے کا مطالبہ کردیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کو بھیجے گئے خط میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو بھی مخاطب کیا گیا ہے جبکہ خط کی کاپی ایچ ای سی اسلام آباد، وفاقی سیکریٹری فنانس اور وفاقی سیکریٹری ایچ ای سی کو بھی بھجوائی گئی ہے۔
اسی طرح وزیر اعلی سندھ کو لکھے گئے خط کی کاپی چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عاصم حسین، ایڈیشنل چیف سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اور صوبائی سیکریٹری فنانس کو بھی بھیجی گئی ہے۔

اس سلسلے میں سندھ کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کا ایک آن لائن اجلاس بھی ہوا یہ اجلاس سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری کی جانب سے بلایا گیا تھا جبکہ سندھ کے وائس چانسلرز کی جانب سے مذکورہ خطوط کا مسودہ بھی ڈاکٹر فتح مری کی جانب سے تیار کیا گیا ہے۔

ان خطوط میں وفاقی وزیر خزانہ، وفاقی وزیر تعلیم اور وزیر اعلی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان بھر کی سرکاری جامعات بالعموم اور سندھ کی جامعات بالخصوص بدترین مالی بحران کی جانب بڑھ رہی ہیں جس سے معیاری تعلیماور تحقیق متاثر جبکہ اکیڈیمیا ، طلبہ اور ریسرچرز میں بے چینی پھیل رہی ہے۔

وفاقی حکومت نے رواں مالی سال میں ہائر ایجوکیشن کا 64 بلین روپے کا بجٹ مختص کیا تھا جو گزشتہ مالی سال 1 بلین کم تھا جبکہ گزشتہ مالی سال 2019/20 میں ایچ ای سی اور فنانس ڈویژن کی جانب سے مشترکہ طور پر جامعات کی ضروریات کا تخمینہ 103ارب روپے لگایا گیا تھا۔

اس بدترین صورتحال کے سبب سندھ کی بعض جامعات تنخواہیں اور پینشن تک ادا کرنے سے قاصر ہورہی ہیں جس کے سبب طلبہ و محققین کی سہولیات کے حوالے سے خود ہی اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔

خطوط میں کہا گیا ہے کہ اب اس بات کی اطلاع ملی ہے کہ وفاقی حکومت نئے بجٹ میں پینشن اور تنخواہوں میں 15سے 20 فیصد تک اضافے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ دوسری جانب وفاقی حکومت اور ایچ ای سی کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں عدم اضافے کی بھی اطلاعات آرہی ہیں جس کے سبب جو جامعات اس وقت 30 فیصد تک مالی خسارے میں ہیں اب وہ 50 فیصد تک مالی خسارے کا سامنا کریں گی۔

خط میں سندھ کی جامعات کی مالی پوزیشن کو واضح کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ اعلی تعلیمی کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سندھ کی 17 سرکاری جامعات کی اسسمنٹ کی گئی ہے جس کے بعد معلوم ہوا ہے کہ صرف ان 17 جامعات کے سالانہ اخراجات 31 ارب روپے سے زائد ہیں تاہم انھیں ایچ ای سی کی جانب سے صرف 7.83 ارب روپے دیے گئے ہیں، 12 ارب روپے یہ جامعات اپنی آمدنی سے لاتی ہیں جبکہ 5 ارب روپے حکومت سندھ دیتی ہے۔

اس طرح سندھ کی سرکاری جامعات کو اس وقت 6 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے،مزید یہ کہ حکومت نے گذشتہ دو مالی سال میں پینشن اور تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا ہے جس کے باعث یہ 17 جامعات بدترین خسارے میں جاچکی ہیں،خط میں واضح کیا گیا ہے کہ خسارے اور بجٹ ضروریات کا تذکرہ جن17 جامعات کے لیے کیا گیا ہے ان میں سندھ میں نئی قائم کی گئی جامعات شامل نہیں ہیں۔

ان نئی قائم کی گئی جامعات میں بی این بی وومن یونیورسٹی سکھر، شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور، شہید اﷲ بخش یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ ڈیزائن جامشورو، صوفی یونیورسٹی بھٹ شاہ، جی سی یونیورسٹی حیدرآباد اور کچھ سب کیمپس شامل ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر سندھ کی جامعات کے لیے مختص 7.83 ارب روپے کے بجٹ کو بڑھا کر 15 ارب روپے کردیا جائے۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر این ایف سی ایوارڈ کے پیٹرن کو مد نظر رکھا جائے تو بھی سندھ کی جامعات کی گرانٹ 16 ارب روپے بنتی ہے۔ خط میں وائس چانسلرز نے وزیر اعلی سندھ سے اس معاملے پر ملاقات کی درخواست بھی کی ہے۔