تحریر: سید انور محمود رینجرز کو حکومت سندھ کی جانب سے گزشتہ برس پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس کے تحت چھاپہ مارنے اور تحقیقات کےلیے ملزمان کو حراست میں رکھنے کے اختیارات دیے گئے تھے جس کی مدت اٹھارہ جولائی کو ختم ہو رہی تھی۔ حکومت سندھ اور وفاق کے درمیان رینجرز کے آئندہ کے کردار اور سندھ میں قیام کی مدت کے حوالے سے حتمی فیصلہ تو بعد میں کیا جائے گا اسوقت تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر حکومت سندھ نے رینجرز کے قیام میں اور کراچی کی حدتک خصوصی اختیار میں ایک ماہ کی توسیع کردی ہے۔ سندھ سے اور خاصکر کراچی سے رینجرز کو روانہ کردیا جائے۔ یہ وہ خواہش ہے جو سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں سندھ کی حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی اور85 فیصد کراچی کی نمایندگی کی دعویدار متحدہ قومی موومینٹ مطالبات اور آئین کی آڑ میں کررہی ہیں، ان میں سے ایک جماعت پیپلز پارٹی نے 1989ء میں بینظیربھٹوکی پہلی حکومت کے دور میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے درمیان کراچی یونیورسٹی میں خونریز تصادم کے بعد مہران فورس نامی بارڈر سیکورٹی فورس کو کراچی بلایا تھا۔
بعد میں شہر میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے باعث مہران فورس کی خدمات کا دائرہ یونیورسٹی سے پورے شہر تک بڑھادیا گیا۔1995ء میں مہران فورس کو سندھ رینجرز کے نام سے منظم کیا گیا، اسکےایک سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ہیں۔1989ء میں صرف کراچی یونیورسٹی میں امن قائم کرنے کےلیے آنے والی مہران فورس جو اب سندھ رینجرز کے نام سے آج 2015ء میں بھی سندھ میں موجود ہے، سندھ اور خاصکر کراچی میں امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لیکن اس طویل عرصےمیں سندھ اور خاصکر کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے ایک مکمل جرائم پیشہ شہر بن چکا ہے اب اُسکو کو دنیا کےخطرناک ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
کراچی جو کبھی امن کا گہواراہ تھا آج لاقانونیت اور لاشوں کا شہر بن چکا ہے، کراچی میں دو چیزیں ملک کے باقی حصوں سے زیادہ سستی ہیں پہلی روٹی اوردوسری موت۔ معروف انگریزی جریدے اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی 2015ء میں دنیا کا سستا ترین شہر ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی کراچی کے حوالے سے2014ء کی رپورٹ نے دو کروڑ کی آبادی والے شہر قائد اور پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کے سب سے بڑے مرکز کراچی میں امن و امان کےکئی پہلو آشکارا کردئیے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اہل کراچی سکون کی نیند سوئے ہوں یا ان پر خوف کی کیفیت طاری نہ رہے۔ وفاقی حکومت نے چار ستمبر 2013ء کو کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وفاقی سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس سینکڑوں شرپسند عناصر کے نام ہیں جن کے خلاف رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن ہو گا۔‘ وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گی جو اس آپریشن کی نگرانی کرتی ہے۔کراچی کا مسئلہ پہلےسے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ آج قانون شکنوں کے گروہ ایک نہیں درجنوں ہیں، جن میں سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگز، فرقہ پرست دہشتگردتنظیمیں، طالبان، القاعدہ اور دیگر مافیاز شامل ہیں۔ غیر ملکی مداخلت اورمدد کہیں زیادہ ہے ۔
Rangers raided MQM Center
گیارہ مارچ کی صبح ایم کیوایم کے مرکز پررینجرز نے چھاپا مارا اور کافی لوگوں کو گرفتار کیا، گرفتار ہونے والوں میں ایسے لو گ بھی موجود تھے جن کو عدالت سے سزائے موت کی سزا مل چکی ہے۔ ایم کیو ایم کےخلاف آپریشن شروع ہوا جس میں اُس کے کارکن پھانسی پانے والے فیصل موٹا اور عمیر صدیقی کے علاوہ اور بھی مجرم پکڑئے گے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُنکی جماعت مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ جمرات 30 اپریل کی شب ایم کیو ایم کے مرکز ناین زیرو پر الطاف حسین نے ریڈ لاین کو عبور کرتے اپنی تقریر میں حکومت، آئی ایس آئی، فوج اور بیوروکریٹس کو سخت ترین کا نشانہ بنایا اور پاکستانی فوج کو مخاطب ہوکر کہا کہ وہ اپنے اندر موجود مجرموں کو کیوں نہیں پکڑتی۔ اُن کا کہنا تھا کہ فوج کے بہت سے سابقہ افسر مجرمانہ کاررائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے پاکستانی فوج اور اسکی قیادت کے خلاف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر کو بہودہ اور ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا۔
گیارہ جون کو اپیکس کمیٹی میں ڈی جی رینجرز نے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق سالانہ 230 بلین روپے دہشتگردی میں استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں نام لیے بغیر واضع طور پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ڈی جی رینجرز کی بریفنگ کے جواب میں آصف زرداری نے اپنے جیالوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بغیر نام لیے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اُنکو دیوار سے لگانے اور اُن کی کردار کشی کرنے کی روش ترک کردیں ورنہ وہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جرنیلوں کے بارے میں وہ کچھ بتائیں گے کہ وہ (فوجی جرنیل) وضاحتیں دیتے پھریں گے۔ آصف زرداری کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اُنھوں نے اپنی جماعت کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کے لیے اہم قومی ادارے کو نشانہ بنایا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے زرداری کی فوج پر تنقید کرنے کو ایک منفی اقدام قرار دیا ہے تو دوسری طرف انھوں نے آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات کرنے سے معذرت کر لی۔ بعد میں آصف زرداری اور اُنکے پارٹی ممبران نے فوج کے خلاف دیئے ہوئے بیان کی وضاحت کی کہ وہ بیان فوج کے خلاف نہیں تھا، جسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے سیاسی حمایت نہیں ملی تو آصف زرداری اور اُنکی بہن کے علاوہ پیپلز پارٹی کے کافی رہنما ملک سے باہرچلےگئے۔
وفاقی حکومت نے جب چار ستمبر 2013ء کو کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تو ہمارے سیاستدانوں نے شاید اس مرتبہ حالات کا صیح اندازہ نہیں لگایا، وہ یہ ہی سمجھ رہے تھے کہ ہمارئے سارئے کاروبار چلتے رہینگے لیکن اس مرتبہ حالات بدلے ہوئے ہیں۔ رینجرز نے سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارکر ریکارڈ تحویل میں لیا اور پھر فِش ہاربر کے عہدیداروں کے گھروں پر چھاپے مارکر گرفتاریاں کیں تو سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو تشویش ہوئی، رینجرز کاروائیوں سے براہ راست متاثرہ ایم کیو ایم نے صورت حال کو غنیمت جانا اور پیپلز پارٹی کی آواز میں آواز ملائی۔ رینجرز نے ایم کیو ایم میں موجود مبینہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف تو کاروائیاں جاری رکھیں تاہم پیپلز پارٹی کے احتجاج کے بعد رینجرز نے مزید کسی سرکاری دفتر یا سرکاری عہدیدار کی گرفتاری کے لیے چھاپہ نہیں مارا۔ آجکل متحدہ قومی موومنٹ اور سندھ رینجرز ایک دوسرے پر براہ راست سنگین الزامات لگارہے ہیں۔ سندھ رینجرز کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت عسکری ونگ چلاتی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ رینجرز نے صوبہ سندھ کو مقبوضہ سندھ بنادیا ہے۔رینجرز کے ترجمان کے مطابق ’ایم کیو ایم کی تنظیمی کمیٹی عسکری ونگ کو منظم کرتی ہے اس لیے اس کے سیکٹر اور یونٹ انچارج گرفتار کیے جا رہے ہیں۔‘
Sindh Government
سندھ حکومت کے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اختیارات میں توسیع مشروط ہے اور ان شرائط کو رینجر ز نے تسلیم کیا ہے۔ سرکاری محکموں میں چھاپوں سے قبل وزیر اعلٰی کو مطلع کیا جائے گا اور رینجرز جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنے والے سرکاری عہدیداروں سے متعلق معلومات کا تبادلہ بھی کریں گے۔ رینجرز کی کارروائیوں سے کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت اور قوم پرستی کی دہائی دے دے کر مجرمانہ سرگرمیوں اور کرپشن کی سرپرستی کا دور چلا گیا۔ رینجرز آپریشن کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے، گو کالعدم دہشتگرد مذہبی گروہ ابھی بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھےہوئے ہیں۔ عوام امن و امان، انصاف اور کرپشن سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں۔ یہ نمائندہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کو کرپشن اور جرائم سے پاک کر کے دکھائیں۔
رینجرز جو اس ٹارگٹڈ آپریشن میں اہم کردار ادا کررہی ہے اُس کو سندھ سے روانہ کرنے کے منصوبے نہ بنائے جایں ۔ کراچی پولیس کی استعداد اور پیشہ وارانہ صلاحیت بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہے۔ صوبے کی قیادت انتہائی نااہل ہاتھوں میں ہے لہذاگورننس بے حد ناقص اور غیر معیاری ہے، سندھ پولیس کے محکمے میں سیاسی ، نا اہل کرپٹ افسران اور اہلکاروں کی بہتات ہے۔پولیس کو اتنے بڑے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے جس جذبےکی ضرورت ہے وہ پولیس کی اپنی کمانڈ پیدا کر تی ہے اور وسائل حکومت فراہم کرتی ہے۔ اس وقت دونوں یہ ذمے داری نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔مطالبہ یہ نہیں کیا جارہا ہے کہ کرپشن والوں کو پکڑو، بلکہ مطالبہ یہ کیا جارہا ہے کرپشن والوں کو نہ پکڑو صرف دہشتگردوں کو پکڑو۔ جو دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والے معززین ہیں ان کو کچھ مت کہو تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “کیا سندھ سے رینجرز کو روانہ کردیا جائے؟۔