تحریر : محمد ارشد قریشی یونیسکو دیوار سندھ کے طور پر مشہور رنی کوٹ کو عالمی ورثہ قرار دینے کی تجویز رکھتا ہے مگر دنیا کا سب سے بڑا قلعہ حکومت کی لاپروائی اور اہلکاروں کی کوتاہی کی وجہ سے لاوارثی کی جیتی جاگتی تصویر بنا ہوا ہے۔کراچی سے حیدرآباد جاتے ہوئے سپر ہائی وے کے بائیں جانب انڈس ہائی وے پر مشہور مقام سن سے جنوب مغرب میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے کارو جبل میں یہ قلعہ واقع ہے۔آثارقدیمہ کے ماہرین کے مطابق رنی کوٹ سوا بیس کلومیٹرپر پھیلا ہوا ہے دنیا کے ان قلعوں میں سے ہے جن کو ابھی تک ٹھیک سے ایکسپلور نہیں کیا گیا۔ قلعہ تک رسائی کے لیے سن سے تیس کلومیٹرپختہ سڑک موجود ہے۔ساسانیوں کا یہ تعمیر کردہ قلعہ فن تعمیر کا نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے کئی ادوار اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔ قبل مسیح کے دور کے بعد عربوں کی فتح کا زمانہ، مغل دور اور تالپور دور میں بھی وقت کے حکمرانوں کے زیر استعمال رہاہے۔رنی کوٹ قلعے کے اندر میری کوٹ اور شیر گڑھ کے نام سے دو اور قلعے ہیں۔ ان دونوں چھوٹے قلعوں کے دروازے رنی کوٹ کے دروازوں جیسے ہیں۔ فوجی نکتہ نگاہ سے میری کوٹ محفوظ پناہ گاہ ہے۔ جہاں رہائشی حصہ زنان خانہ، کچھ فوج کے رکھنے کا بندوبست بھی ہے۔
اس تاریخی مقام سے کئی تاریخی واقعات منسوب ہیں جن میں سے بیشتر پر ابھی مستند تحقیق ہونا باقی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قلعہ کے اندر مختلف مقامات سے کئی دیومالائی کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ قلعے کے اندر مغربی حصے سے پھوٹنے والا چشمہ ہے جس کو پریوں کا چشمہ کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پونم رات یعنی چاند کی 14 تاریخ کو یہاں پریاں نہانے آتی ہیں۔ صدیوں پرانے اس تاریخی مقام کے لیے محکمہ آثار قدیمہ خواہ سیاحت کی جانب سے کوئی بندوبست نہیں۔ بلکہ کوئی ایک ملازم بھی مقرر نہیں جو اس قلعہ کی حفاظت تو دور کی بات نظرداری کرے۔قلعہ اب محکمہ ثقافت کے ماتحت ہے مگر یہ محکمہ بھی اس کی وارثی نہیں کر رہا۔اتنے بڑے ورثے کی رکھوالی کے لیے محکمے کے پاس ایک بھی ملازم نہیں ہے اور یہ لاوارث بنا ہوا ہے۔
جب محکمہ آثار قدیمہ وفاقی حکومت کے ماتحت تھا تب ایک چوکیدار مقرر تھا۔ اس کے ریٹائر ہونے کے بعد کسی کو بطور چوکیدار مقرر نہیں کیا گیا۔قلعہ کو دیکھنے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محکمہ ثقافت کی نہ اس تاریخی مقام سے دلچسپی پہلے رہی نہ ہی اب کوئی دلچسپی ہے۔مختلف دیواریں جو پہلے ہی خستہ اور زبون حالت میں تھیں ان کو گزشتہ دو سال کی بارشوں نے مزید زبوں حال کردیا ہے۔ میری کوٹ، شیر گڑھ اور خود اصل قلعہ کی جنوبی دیوار بہت کمزور ہو چکی ہے جو کہ پوری توجہ سے مسلسل مرمت کی طلبگار ہیں۔وزیٹرز کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ سیاحوں کے لیے کوئی گائیڈ موجود نہیں۔ کوئی شیڈ ہے نہ بیٹھنے کی جگہ اور نہ ہی واش روم وغیرہ کی سہولت ہے۔ 80 کے عشرے میں میری کوٹ میں ضلع کونسل نے ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا تھا، جو اب زبوں حال ہے، اس کی چھت گر چکی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود درجنوں سیاح یہاں آتے ہیں۔
Rani Kot Wall
رنی کوٹ کے اندر حکومت نے میری کوٹ تک پختہ سڑک تعمیر کرائی تھی۔ یہ روڈ تو ٹوٹ چکی ہے مگر اس پر دو پُلیں جو برساتی نالے کو کراس کرتی ہیں دس سال سے زیر تعمیر ہیں، اور باقی 80 یا 85 فٹ تعمیر باقی ہے جہاں پر یہ کام روک دیا گیا ہے۔مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ ٹھیکیدار اور حکومت کے درمیان تنازع کے بعد معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ نہ عدالت سے فیصلہ آرہا ہے۔ نہ حکومت کوئی پیشرفت کر کے معاملے کو نمٹا رہی ہے۔قلعہ کے اندرناجائز تجاوزات ہونے لگی ہیں۔مقامی آبادی ٹریکٹر گھما کر سائٹ کو نقصان پہنچا رہی ہے میری کوٹ کے قریب زیر تعمیر پل کے پاس بدھ دور کی سائٹ پر دو کمرے تعمیر کئے جارہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر ایک مقامی باثر شخص ہوٹل تعمیر کرنا چاہ رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ سیاحت کے فروغ کے لیے محکمہ کسی کو 500 فٹ زمین بھی دینے کے لیے تیار نہیں مگر غیرقانونی طور پر لوگ کئی ایکڑ پر قبضہ کر رہے ہیں۔میری کوٹ سے مغرب میں گبول قبیلے کا ایک گاؤں قلعے کے اندر واقعہ ہے۔ یہ لوگ یہاں پر چھوٹی موٹی کاشکاری بھی کرتے ہیں۔
یہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے، مگر اس کے باوجود حکام یہاں سیاحت کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں کراچی سے اس قلعے تک رسائی نہایت آسان ہے اور قومی شاہراہ کے ذریعے یہاں پہنچا جا سکتا ہے. کراچی سے نکلنے کے بعد دادو کی جانب انڈس ہائی وے پر سفر کریں۔ اس سڑک کی حالت بہترین ہے اور سندھی قوم پرست جی ایم سید کے آبائی قصبے سن تک ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ اس قصبے سے کچھ آگے ایک دوراہا آتا ہے، ایک زنگ آلود بورڈ پر اعلان کیا گیا ہے کہ رنی کوٹ یہاں سے لگ بھگ تیس کلو میٹر دور واقع ہے۔ اگرچہ سڑک کافی خراب ہے مگر پھر بھی یہ فاصلہ تیس سے چالیس منٹ میں طے ہوجاتا ہے۔اب یہ اہم سوال کہ کیا اس قلعہ کی سیر کراچی والوں کے لیے محفوظ ہے؟ کیا اس علاقے میں ڈاکو موجود ہیں؟ اس کا جواب کافی پیچیدہ ہے۔
اکثرفیملیز، کراچی کے باسی، اور گورے بھی یہاں آتے ہیں . مقامیوں کا اصرار ہے کہ یہ جگہ محفوظ ہے مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہاں پولیس کہیں نظر نہیں آتی۔مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ آپ یہاں ایک دن کے اندر گھوم پھر کر واپس آسکتے ہیں، یہ سندہ کی ایک شاندار اور بہت اہم آثار قدیمہ کی باقیات میں سے ہے لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت بھی واضح نظر آتا ہے اور سیاحوں کی حفاظت کے انتظام یا یہاں قیام کے انتظامات ناقص ہیں اگر اس پر حکومت توجہ دے تو نا صرف یہاں پوری دنیا سے سیاح آسکتے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کو کاروبار کے بہترین مواقع بھی فراہم کیئے جاسکتے ہیں۔