تاریخی طور پر دیکھا جائے تو سندھ میں بسنے ولا کوئی ایک فرد بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ سندھ کا اصل مالک یا باشندہ ہے۔عرب، ایران اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آکر کو ئی ہزار سال ،کوئی پانچ سو سال اور کوئی ستر سال قبل یہاں آباد ہوا ۔مگر آج سے ستر سال قبل تک ہندووں کی غلامی کرنے والا سندھ کا موجودہ دور کا استحصالی طبقہ اپنے آپ کو سندھ کا مالک و مختار ظاہر کر رہا ہے۔ 712 ء میں محمد بن قاسم کی آمد سے قبل سندھ راجہ داہر کی ہندو راج دہانی ہوا کرتا تھا۔در اصل آج کا سندھ کا استحصالی طبقہ کسی کو اُس کے حقوق دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔آج آصفٖ علی زرداری کا بیٹابلاول جنوبی پنجاب میں صوبہ بنانے کی بات کرے تو واہ واہ کیا کہنے! اور اگر سندھ سے نئے صوبے کا نعرہ لگے تو کہا جائے’’ مرسو مرسو سندھ نہ دے سو‘‘ بلکہ حقوق غصب کر کے کہا جائے سب پر قبضہ رکھ کسی کو حقوق نہ دے سو ! ساری دنیا میںآج انسای حقوق کا غلغلہ ہے۔مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں استحصالی طبقات اور استحصالی سیاسی چُغادریوں نے انسانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے تحت حقوق دینے پر کسی قیمت پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔اس وقت موقع اچھا تھا کہ فاٹا کے علاقے کو بجائے خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے کے ایکالگ صوبے کا درجہ دیدیا جاتا ۔مگر بعض سیاست دانوں کے سیاسی مقاصد کو پوراکرنے کے لئے ایسا نہیں کیا گیا۔جب زردار کے بیٹے بلاول نے پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبے کا مطالبہ کیا تو سندھ کے شہری علاقوں کے پسے ہوئے لوگوں کی زبان سے بھی کراچی صوبے کی آوازبلند کی گئی۔ تو بقیہ دو دن کے اقتدار کے نشے میں چور سابقہ وزیر اعلیٰ کے بیٹے مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر برملا کہا کہ میں سندھ میں الگ صوبے کا مطالبہ کرنے والی ذہنیت پر لعنت بھیجتا ہوں اور پھر لگے مہاجروں کو اول فول بکنے۔مسٹر مراد علی شاہ! کیا آپ پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبہ کی بلاول زرداری کی ذہنیت پر بھی لعنت بھیجتے ہیں ؟کیونکہ انہوں نے ہی سندھ کی جانب سے سب سے پہلے الگ صوبے کا مطالبہ پنجاب میں کر چھوڑا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت ہندوستان غالباََ گیارہ صوبوں پر مشتمل ملک بن کر سامنے آیا تھا۔ جبکہ پاکستان اس وقت 13یونٹ پر مشتمل تھا۔آج ہندوستان قریباََ 52 صوبوں پر مشتمل ملک بن چکا ہے جبکہ پاکستان اس وقت صوبہ گلگت بلتستان کو ملا کر5 صوبے ہیں۔اور پاکستان کی موجودہ متنازعہ مردم شماری کے تحت لگ بھگ 21کروڑ آبادی کا ملک ہے۔دنیاکی آبادی میں صنعتی لحاظ سے صفِ اول کا ملک جاپان جو 17کروڑ آبادی کا ملک ہے ۔جس کے 47صوبے ہیں۔اسلامی دنیا کا ملک ترکی قریباََ پونے8کروڑ آؓادی کا ملک ہے۔جس کے 81 صوبے ہیں۔فرانس لگ بھگ 6.6کروڑ آبادی کا ملک ہے مگر اسکے بھی 18صوبے ہیں ۔ایران 8کروڑ کی آبادی کا ملک ہے مگر اس کے بھی 31صوبے ہیں۔دنیاکا چھوٹاترین ملک آئس لینڈجس کی آبادی کراچی کی ایک ڈسٹرکٹ سے بھی کم ہے یعنی 4 لاکھ نفوس پرمشتمل ملک بھی74 کاؤنٹیز رکھتا ہے۔پاکستان کا ہمسایہ ملک افغانستان 3 کروڑ کی آبادی پربھی33 صوبوں پر مشمل ملک ہے(نوٹ ان میں سے زیادہ تر اعدادو شمار جناب خلیل احمد نینی تال والا کے مضمون کراچی والوں کے حقوق لوٹا دوسے لئے گئے ہیں)پاکستان کو مزید صوبوں میں تقسیم کر کے لوگوں کو ان کے حقوق دینے میں کیا قباحت ہے؟جسقدر زیادہ صوبے ہوں گے عوام کو بے حد آسانیاں میسر ہوں گی۔
سندھ کے سیاست دانوں کو تو چھوڑئے جن کے سیاسی مقاصد ہیں۔سندھ کی تقسیم پر یا یہاں مزید صوبے بنانے پر اکثر سندھی دانشور بھی سیخ پا ہو جاتے ہیں۔جی این مغل کہتے ہیں کہ ہندوستان سے ہجرت کر کے لوگ سندھ کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے تو سندھ کے لوگوں نے ان کے لئے نا صرف صوبے،اپنے گھروں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دلوں کے دروازے کھول دیئے۔بجا! مگر جس وقت سندھ کا ہندو ،ہندوستان گیا تو ان کا بھی ہندوستانیوں نے دل و جان سے استقبال کیا تھا۔یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونی چاہئے کہ قیام پاکستان سے قبل سندھ میں3لاکھ آبای پر ہندو نشستوں کی تعداد100 میں سے 45 تھی۔ ان ہندووں کی چھوڑی گئی جائیدادوں اور نشستوں کے حقدار ہندوستان سے آنے والے لوگ ہی تھے مگر وڈیرہ ذہنیت نے ان کو ان کا پور ا حق بھی نہ دیا اور اُلٹا سندھ میں دل و جان سے بسانے کا طعنہ آج تک دیتے ہیں۔جبکہ اپنے حصے کا پاکستان یہ لوگ اپنے ساتھ لائے تھے۔مگر آج 3 کروڑ کی آبادی کے باوجود بھی اردو بولنے والوں کے لئے نشستیں اتنی بھی نہیں ہیں جتنییہاں پر ہندوؤں کو میسر تھیں۔سندھی دانشور کہتے ہیں کہ بعد میں سندھ کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا گیااور جو نفرت کی آگ بھڑکائی گئی اس پر سندھ کے اکثر حلقے کہتے ہیں کہ سندھ کا یہ حشر اس وجہ سے کیا گیا کہ سندھ نے پاکستان بنایاتھا؟اگر سندھ اسمبلی سب سے پہلے قراردادِ پاکستان منظور نہ کرتی تو کیا پاکستان بن سکتا تھا؟اور اگر بنتا تو اس میں شائد سندھ شامل نہ ہوتا۔
یہ بات سندھی دانشوروں کو ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ قیامِ پاکستان سندھ کی قرار داد کی وجہ سے عمل میں آیا ۔3جون کا منصوبہ دیکھ لیں جس کے تحت مسلمان اکثریتی علاقوں میں قیامِ پاکستان ناگذیر تھا۔جی ایم سید نے ایڑی چوٹی کا زور سندھ کو پاکستان سے توڑنے کے لئے لگا دیا ۔یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کراچی مملکت پاکستان کا دارالحکومت بن گیا تویہ ایک الگ یونٹ بن گیا تھا۔مگر بعد کے دور میں کراچی اور کراچی والوں کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کر کے بانیانِ پاکستان پر وہ ظلم کیا تھا جس کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔سندھ کی نسلی منافرت ذوالفقار علی بھٹو کا تحفہ ہے! یہ بات بھی پاکستان کی تاریخ کے ہر طالب علم کو معلوم ہے کہ جی ایم سید جیسے انتہا پسند نے ہی بانیاں پاکستان کو سندھ میں آکر یہاں کی معیشت ،صنعت،تعلیم اور ہنر کے میدانوں پاکستان کو آگے بڑھانے کی دعوت بھی دی تھی۔بانیان پاکستان ہر ہر حوالے سے آسودہ حال تھے۔ان کی محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں ہی پاکستان نے صنعتی میدان میں ترقی کی اورآج ان سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان پر اور سندھ پر نام نہاد سندھی کا ہی حق ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں صوبوکی آواز اٹھانے سے عوام کو دور رکھا جارہا ہے۔مزید صوبے مانگنے والوں کی زبانیں کاٹ دینے کی دھمکیاں دیجاتی ہیں۔ہم پاکستان توڑنے کی بات کبھی کر ہی نہیں سکتے ہیں مگر اب کراچی صوبے کے مطالبے سے بانیاںِپاکستان کی اولادوں کو کوئی روک نہیں سکتا ہے۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.com