سر سید احمد خان مسلم قوم کا معمار اعظم

 Sir Syed Ahmad Khan

Sir Syed Ahmad Khan

سر سید احمد خان ,17 اکتور1817 میں دہلی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوے ان کے والد سید محمد متقی دہلی کے اہم آدمی مانے جاتے تھے۔ جس وقت سر سید احمد خان نے اس جہانِ فانی میں آنکھ کھولی ہندوستان کی مسلم کمیونیٹی انتہائی کرب کے عارضے میں مبتلا تھی۔ کیونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے متعصب انگریز مسلمانوں سے انتہا درجے کی نفرت کرتے تھے۔ عیسائیوں کا یہ ٹولہ تاجروں کے بھیس میں ہندوستان میں داخل ہوا تھا اور سازشوں کے ذریعے یہاں کا حکمران بننا چاہتا تھا۔

مسلم بنگال جو آج سیکولرزم کا راگ الاپتے الاپتے اپنی اصل سے بھاگ رہا ہے۔ یہ ہی علاقہ ہے جوسب سے پہلے اس سامراج کے راستے کی چٹان ثابت ہوا تھا۔ اس کے بعد میسور کے شیر نے ان کا راستہ روکنا چاہا تھا۔مگر بد قسمتی ہندوستان کی مسلمان قوم کی یہ رہی ہے کہ مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی ایک مسلم ریاست بھی میسور سے ملحق تھی۔ متعصب عیسائی تاجر یہ محسوس کر رہے تھے کہ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان غاصبوں کی مسلمان قوم کے خلاف نفرت بام عروج پر تھی۔ان لُٹیروں نے مسلمانوں کی تباہی کے تمام سامان مکمل کر لئے تھے۔ سب سے پہلے انہوں مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر شب خون مارا اور سلیقے کے ساتھ ان کے تعلمی اداروں کو تباہ و بر باد کرنا شروع کر دیا۔انکی جگہ پر عیسائی مشنری اسکول کھولنا شروع کر دیئے جہاں اسلام کے خلاف بچوں کے ذہن تیار کرنا شروع کر دیئے گئے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں میں ان کے تعلیمی اداروں کے خلاف نفرت پیدا ہونا شروع ہوگئی۔جس علاقے میں یہ غاصب گھستے وہاں کے مسلمانوں کی جاگیریں اور جائیدادیں چھین کر ان کو نانِ شبینہ کا مہتاج کر دیتے تھے اور ان کے تعلیمی اداروں کو کام کرنے سے جبریہ روک دیتے تھے۔ اس صورتِ حال سے ہندو کمیونیٹی بھر پور فائدہ اٹھا رہی تھی۔ ایک جانب ان کی مسلمانوں سے چھپی نفرت ظاہر ہو رہی تھی تو دوسری جانب انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار سے انہیں نجات ملا چاہتی ہے۔اس پُر آشوب دور میں سید محمد متقی نے اپنے ہونہار بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ جن کے دل میں مسلم قوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ اس دنیا سے27 مارچ 1898,کورخصت ہوے تو نہایت مطمعن قلب کے ساتھ ربِ کائنات کے حضور پیش ہوئے۔

یہ بات ہر پاکستانی کو ماننی پڑے گی کہ سر سیدد احمد خان ہی ہند کی ملت اسلامیہ کے معمار اعظم اور ملتِ اسلامیہ کا عظیم دفاعی حصار تھے۔کیونکہ 1857کی جنگِ آزادی کی ناکامی کی وجہ سے اُس پُر آشوب دور میں کوئی ایک بھی مرد مجاہد ایسا نہ تھا جو ہند کی تباہ حال ملت اسلامیہ کی ابتر حالت کوسنوارنے کی طاقت رکھتا ہو۔ مسلمان تعلیمی ادارے پہلے ہی برباد کئے جا چکے تھے۔ راسخ العقیدہ مسلمان رہنمائوں کو چن چن کر پھانسیوں پر چڑھایا جا چکا تھا۔ مسلمان نانِ شبینہ کے محتاج بنا دیئے گئے تھے۔ کہیں بھی کو ئی امید کی کرن دکھائی نہ دیتی تھی۔ معاشرتی معاشی اور سیاسی لحاظ سے ان کی کوئی حیثیت نہ تھی انگریز کی نفرت اس وقت مسلمانوں کے خلاف بامِ عروج پر تھی۔ تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت کو پھانسیوں پر چڑھاکر ان کا پورا نظام تلپٹ کیا جا چکا تھا۔ کوئی مسلمانانِ ہند کا پرسانِ حال نہ تھا۔جو لوگ خوش حال تھے وہ انگریز کی غلامی میں حمیتِ ملت سے عاری تھے۔1757کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی جو تاجروں کا ٹولہ اپنے آپ کو ظاہر کر رہی تھی وہ تمام کے تمام مغرب کے لُٹیرے تھے جنہوں نے ہندوستان کی ہر چیز پر آہستہ آہستہ قبضہ جما لیا تھا۔ یہ مسلمانوں کے جذبہِ حریت سے ہمیشہ سے ہی خائف رہے ہیں۔ جن لوگوں میں غیرت کیذرا بھی رمق نہ تھی انہوں نے اپنی بساط کے مطابق اپنے ہم وطنوں سے غداری کا فریضہ ادا کیا۔وہ انگریز کی غلامی میں ہندووں پر بھی سبقت لیجانا چاہتے تھے۔ جنہیں ہند کے تباہ حال مسلمانوں کی کوئی پروا نہ تھی۔

Hindustan

Hindustan

برِصغیر کے مسلمانوں کی تقدیر بدل دینے والوں میں اول نام سر سید احمد کا ہی آتا ہے۔ سر سید احمد خان ایک باریش مذہبی شخصیت کے حا مل تھے۔ مگر اپنی قوم کی بد حالی کو بدل دینے کے لئے وہ ہر حد عبور کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ڈوبی ہوئی کشتی کو ناصرف تہہ سے اُپر لائے بلکہ اس کو کنارے لگانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی ،اور وہ اپنا یہ فریضہ بحسُن و خوبی انجام دے کر ہی اس دینا سے رخصت بھی ہوے۔ اس ضمن میں انہوں نے سب سے پہلا فریضہ یہ انجام دیا کہ مسلمانوں کی معاشرتی بے راہ روی کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ دوسرا اہم فریضہ انہوں نے یہ ادا کیا کہ اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں پر اُن کی کمزوریوں کو اپنی تہذیب الاخلاق کی تحریر وں اور تقریروں کے ذریعے واضح کرتے ہوے بتایا کہ مسلمان اپنی معاشرتی حالت کو بدلیں اور یہ ذہن نشین کر لیں کہ اس وقت وہ نہایت ہی کمزور ہیں وہ طاقت کے بل پر کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کی علمی ترقی پر توجہ ہر حال میں دینا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مسلمانوں کی اس غلامی کا سورج کبھی غروب نہ ہوگا۔ ہمارا خیال ہے کہ اُس وقت مسلمانوں سے زیادہ طاقتور تو وہ وہ طبقہ تھا جس نے آتھ سو سال مسلمانوں کی غلامی میں گذار دیئے تھے۔

سر سید احمد خان کروڑوں کے انبوہ میں اس وقت اکیلے تھے جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی بد حالی ختم کرنے پراپنے آپ کو کمر بستہ کر لیا تھا۔ان کے ساتھ بقول شاعر ”لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا”کے مصداق درد مند مسلمانوں کے وہ افراد اکٹھا ہوگئے جو مسلمانان ہند کی بد حالی پر خون کے آنسو روتے تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا غاصبانہ طریقے پر حاصل کیا ہوا اقتدرا اپنی ملکہ کو منتقل کر کے ہندی مسلمانوں کی مُشکین مزید کسنے کا پروگرام مرتب کرلیا تھا اور ہندوستان کو برطانیہ کی غلامی کا طوق پہنا دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کو اپنا حریف اول تصور کرتے تھے۔ ہندو طبقہ اپنے آقا کی تبدیلی پر جشن منا رہا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کو مشنری اسکولوں میں ابتدائی زمانے سے ہی بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ جن سے مسلمان سخت نفرت کرتے تھے۔

یوں مسلمان غاصبوں کی آنکھ کا شہتیر اور ہندو ان کی آنکھ کا تار بن گیا۔ جس سے مسلمانوں کی تباہی میں انگریز غاصبوں کو بڑی مدد ملی۔ سر سید ایسے دل کا مردِ میدان ان حالات سے بہت زیادہ فکر مند تھا۔ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ کس طرح اس گرداب سے مسلمانوں کو نکالیں۔ مگر وہ شحص ہمت جوان رکھتا تھا جس کے سہارے اُس نے ایک جانب ہندووں اور ان کی جماعت کانگریس کی عیاری کا پردہ چاک کیا تو دوسری جانب بھٹکے ہوے اور تباہ حال مسلمانوں کی بد حالی کو ختم کرنے کے راستے تلاش کئے۔انگریز جو ہندستان کا غاصب حکمران بن چکا تھااس کی نفرت کے خاتمے کی غرض سے اسبابِ بغاوت ہند لکھ کر اُس پر یہ بات واضح کی کہ مسلمانوں نے انگریزاوں کے خلاف طبلِ جنگ کیوں بجایا تھا؟دوسری جانب ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی متعصابانہ تحریر Our Indian Muslims میں مسلمانوں پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کا مدلل جوب دے کر ان کے تعصابانہ ذہن کی تلخی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا،اور بتایا کہ انہوں نے انگریز کے خلاف جنگ کا کیوں آغاز کیا؟اس کے ساتھ ہی انہوں مسلمانوں کے علمی جہُل کا خاتمہ اور معاشی بد حالی ختم کرنے کے لئے اپنے آپ کو کمر بستہ کیاہوا تھا،اور کسی بھی موقعے پر انگریز کی ناراضگی کو قریب نہیں لگنے دیا ۔انہوں نے زہر کا توڑ زہر سے ہی کیا۔ایک جانب مسلمانوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تعلیمی ادارے قائم کئے تودوسری طرف انگریز کو اپنا ہمنوا بنایا تیسری جانب مسلمانوں کے معاش کے رستے ان ہی کٹھن راستوں سے نکالے۔ تاکہ علم کے حصول کے بعد مسلمان بچے بے روزگاری کے عذاب میں اپنے اجداد کی طرح مبتلا نہ رہیں اور سب سے پہلے ان کی معاشی بد حالی کا خاتمہ کیا جا سکے۔اس کام میں سر سید احمد خان نے کبھی بھی شرم محسوس نہ کی،گو کہ اُن پر بے تحاشہ الزمات بھی لگے۔ اپنے ہی لوگوں نے کیا کیا الزامات تھے جو اس عظیم انسان پر نا لگائے ہوں۔ مگر یہ بطلِ جلیل ہمت کا پکا اور کردار کا سچا تھا اس لئے کوئی رکاوٹ اس کے راستے کی دیوار نہ بن سکی۔ علم کے میدان میں اس نے مسلمانانِ ہند کو اُن کی منزل پر ہی پہنچا کر دم لیا۔

اگر اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو غلام ہی رکھنا ہوتا تو وہ سر سید احمد خان کو ہر پیدا نہ کرتا!!!سر سید احمد خان کی سماجی تعلیمی اور سیاسی خدمات کا اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو ہمیں ان کی بلندی کا اندازہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانگریس بنیاد رکھ کر اور ہند کے مسلمانوں کو وقتی طور پر سیاست سے الگ رکھ کر اور اپنے آپ کو انگریزوں کا وفادار ظاہر کر کے سر سید احمد خان نے انگریز کوبھی مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی خدمت کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس خدمت کے صلے میں سر سید احمد خان پر انگریز کا غلام ہونے کی تہمت اکثر ایسے مسلمانوں کی طرف سے لگائی جاتی رہی تھی جو مسلمانوں کو بد حالی سے نکالنے کا کوئی باقاعدہ منصوبہ نہ رکھتے تھے۔

 Sir Syed Ahmad Khan

Sir Syed Ahmad Khan

ان پر انگریز کا ٹوڈی، مسلمان معاشرے کو تباہ کرنے والا اور کافرتک ہونے کے خطرناک الزمات لگائے گئے۔ مگر اُن کے پائیہ استقلال میں کوئی فرق نا آیا تھا!!! جب علی گڑھ کے تعلیمی ادارے کی تعمیر کے لئے پیسے کی ضرورت پڑی تو قوم کے ہرچھوٹے بڑے فرد سے سر سید احمد خان نے جھولی پھیلا کر بھیک مانگی۔ اس با ریش مسلمان نے باوجود پابندِ صوم و صلوة ہونے کے مسلمانوں کے تعلیمی ادارے علی گڑھ اسکول و کالج کی تعمیر کے لئے و ترقی کے لئے فنڈز حاصل کر نے کی غرض سے اسٹیج پر ٹھمکے بھی لگائے۔ کیا آج کا کوئی عالم ایسا کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟؟؟ اور عالم بھی وہ جو تفسیر قرِِآن کا بھی حامل ہو!!!اس کا جواب نفی کے سوائے اور کچھ مل بھی نہیں سکتا ہے۔جس کے نتیجے میں 1875 میں علی گڑھ شہر میں ایک مثالی اسکول قائم کیا اور 1877میں ایک عظیم الشان کالج کی بنیاد وائسرائے ہند لارڈ لٹِن کے ہاتھوں رکھوائی گئی تاکہ ہندوستان کی تباہ حال مسلم ملت کی شیرزہ بندی کی جا سکے اور اس میں انگریز اساتذہ رکھے گئے جس کے تین مقاصد تھے ایک تو انگریز کی مخالفت سے بچنا، دوسرے مسلمان بچوں کی جدید تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا، تیسرے فارغ التحصیل طلبا کو انگریز کے ذریعے بہترین ملازمتیں دلوانا۔ تاکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی معاشی پریشانیوں کو کم سے کم کیا جاسکے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سر سید احمد کا اڑھنا بچھونا مسلمانوں کی تعلیمی معاشی سماجی اور ان کی سیاسی ترقی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابوالکلام جیسا بڑا اسکالر سر سید احمد خان کی بڑائی کے حوالے سے یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ” اگر اسلام میں بت پرستی جائز ہوتی تو میں سر سید کا بت بنا کر اسکی پوجا کرتا” لہٰذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سر سید احمد خان مسلمان قوم کے معمارِ اعظم تھے۔ سر سید احمد خان ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے۔

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
[email protected]