تحریر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی زندہ قوموں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد کے حالات سے باخبر ہوتی ہیں۔ اور اپنے مسائل کے حل کے لیے خود ہی اپنی زندگی کی راہیں ہموار کرتی ہیں۔ جب کبھی کسی قوم میں ظلمت و جہالت کے اندھیرے چھاجاتے ہیں تب اس ہی قوم میں کچھ اعلیٰ صفات والے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو اپنے کارناموں سے نہ صرف اپنے عہد کو متاثر کرتے ہیں بلکہ آنے والے زمانے کے لیے بھی مثال بن جاتے ہیں۔ انیسویں صدی کے ہندوستان کی سماجی و تہذیبی تاریکی کے دور میں اپنی شخصیت اور علمی و ادبی کارناموں سے اپنے عہد اور آنے والے زمانے کو متاثر کرنے والی ایک اہم شخصیت سرسید احمد خان کی تھی۔ جن کا یوم پیدائش 17 اکتوبر کو علی گڑھ اور ہندوستان میں منایا جاتا ہے اور ان کے کارناموں کا اعادہ کرتے ہوئے ان سے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مختصر لفظوں میں کہا جائے تو سرسید ایک عہد ساز شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے اپنی حیات’اپنے علمی و ادبی کارناموں اپنی فلاحی خدمات اور اپنی ذات میں انجمن ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ ایک ایسے دور میں مسلمانوں اور ہندوستانیوں میں زندگی کی روح پھونکی تھی جب کہ انگریزوں کی غلامی سے پریشان حال ہندوستانی اور مسلمان زندگی کے تمام مورچوں پر شکست کھاچکے تھے اورانہیں آگے بڑھنے کی کوئی راہ نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ سرسید نے لوگوں کو خواب غفلت سے جگایا۔ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے بعد لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کا ہنر سکھایا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی۔ تہذیب الاخلاق کے مضامین’سائنٹفک سوسائٹی کا قیام ‘علی گڑھ تحریک اور اپنے رفقاء کے ذریعے ادب کے مختلف مورچوں پر اصلاح کا جو کام کیا ۔ یہ ایک تاریخی اور عہد ساز کام تھا۔
سرسید کے دور میں جو تاریکی تھی اگر اس کا جائزہ لیں اور موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں بہت سی باتیس یکساں معلوم ہونگی۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری تاریخ کی اہم شخصیت سرسید احمد خان کے یوم پیدائش پر ہم انہیں یاد تو کرتے ہیں لیکن کیا ہمیں یہ احساس ہے کہ موجودہ زمانے میںکیا ہمیں کسی سرسید ثانی کی ضرورت نہیں جو مسلم قوم اور ہندوستانی قوم کو تعلیم کی اہمیت سے واقف کرائے۔ قلم کی طاقت سے واقف کرائے۔ انگریزی تعلیم کی اہمیت سے واقف کرائے۔ سائنسی علوم کی اہمیت سے واقف کرائے زندگی میں کام آنے والے ہنر سیکھنے کی طرف راغب کرے اور ہمیں جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی سے ہم آہنگ نہ کرے ۔ تو جواب ملتا ہے کہ ہاں ہمیں سرسید ثانی کی تلاش ہے۔ اور ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ اپنے عہد اور اپنی زندگی میں ہم سرسید کی طرح کو کوئی بے لوث مصلح قوم تلاش کریں اور اس کی رہنمائی میں اپنی زندگی کا تاریک راہوں میں روشنی حاصل کریں۔یا کوشش کریں کہ خود سرسیدکی حیات ہمیں ایک سرسید ثانی کی طرح رہبری کرتی رہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ سرسید کے وہ کیا کام ہیں جن کی آج کے دور میں ہمیں احیاء کرنے کی ضرورت ہے اور کسی سرسید ثانی کو ہم کیسے کھوج سکتے ہیں۔ اگر شخصی طور پر بھی ہمیں کوئی سرسید ثانی نہ ملے تو ہم سرسید کی حیات سے اپنے لیے روشنی حاصل کرسکتے ہیں۔ سرسید کی والدہ نے ان کی اچھی تربیت کی تھی۔ اور ایک مرتبہ جب انہوں نے نوکر کو برا بھلا کہا تھا تو ان کی والدہ نے انہیں گھر سے باہر نکال دیا اور جب تک انہوں نے معافی نہیں مانگی انہیں گھر میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تربیت اولاد کے معاملے میں آج ہمیں کچھ زیادہ ہی چوکنا رہنا ہے۔ آج ہمارے بچے انٹرنیٹ’اسمارٹ فون’ٹیلی ویژن اور مخرب اخلاق پروگراموں کے سایے میں اپنا بچپن گذار رہے ہیں اس زہر آلود ماحول سے انہیں بچانا ہے اور بے جا لاڈ و پیار کے بجائے تربیت کے دوران ان پر سختی کرنا ہے اسلامی انداز میں ان کی تربیت کرنا ہے اور انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔سرسید نے ایک ایسے دور میں اپنے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا تھا جب کہ اس دور میں تعلیم کے وسائل محدود تھے۔اپنے والد نانا کے علاوہ دیگر اساتذہ اور ذاتی استعداد سے ریاضی’تاریخ اور طب کے علوم حاصل کیے ۔ سرکاری ملازمت اختیار کی اور صدر امین بنائے گئے انگریزوں نے انہیں سر کا خطاب دیا۔ اور انہوں نے انگلستان سے ایل ایل ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ مسلمانوں کے موجودہ حالات دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا بڑا طبقہ آج بھی تعلیم سے دور ہے۔
Sir Syed Ahmed Khan
متوسط طبقے کے کچھ لوگ پڑھ رہے ہیں لیکن دولت مند اور غریب اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہورہے ہیں جب کہ سرسید کی حیات ہمیں یہ روشنی دلاتی ہے کہ ہم اپنے عہد کا جائزہ لیں اور تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔موجودہ حالات میں گزشتہ دو دہائیوں کے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی اچھی معاشی حالت میں ان کی بیرون ملک اور خاص طور سے خلیجی ممالک میں ملازمتوں کے سبب خوش حالی آئی تھی۔ لیکن موجودہ حالات یہ واضح کرتے ہیں کہ اب خلیجی ممالک کے پٹرو ڈالر کا دور ختم ہوگیا اب ایک مرتبہ پھر اچھی تعلیم کے ذریعے اپنے ہی وطن میں فکر معاش کرنا ہے ۔ اس طرح سرسید کی حیات ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اب بھی ہم اپنی کوشش سے اعلی تعلیم جیسے آئی اے ایس وغیرہ کی کوشش سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہندوستان میں مختلف آئی ٹی کمپنیوں میں بھاری یافت کے ساتھ ملازمتیں ہیں جن کی جانب مسلمانوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سرسید نے قلم کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا اور کتابوں کی تصنیف اور مضامین کی اشاعت کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہونچائی۔ ابتدا میں آثا الصنادید اور تاریخ بجنور جیسی کتابیں لکھیں ۔ بعد میں تہذیب الاخلاق کے اجرا کے ذریعے سرسید نے اصلاحی و فکر انگیز مضامین لکھے اور خواب غفلت میں ڈوبی قوم کو جگایا۔ موجودہ دور میں مسلم قوم کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے ایک مرتبہ پھر انہیں اخبارات اور میڈیا کے وسیلے سے اچھی بات پہونچانے کی ضرورت ہے۔ آج مسلم قوم میں بے کاری’بے عملی’اسراف ‘دکھاوا’ جہالت او ر بہت سی سماجی اور تہذیبی بیماریاں عام ہیں۔ ایسے میں سرسید جیسے کسی مصلح قوم کی ضرورت ہے جو انہیں سرسید کی طرح کتابوں یا مضامین کی شکل میں زندگی کا پیغام دے آج ہمار ے اردو اخبارات مسلم قوم کو ان کی سماجی بیماریوں سے آگاہ کرتے ہیں کہ شادی بیاہ اور دیگر کاموں میں اسراف سے بچا جائے سادگی اختیار کی جائے لیکن ابھی اس معاملے میں مزید ترقی کی ضرورت ہے۔
سرسید نے اپنی بات دوسروں تک پہونچانے کے لیے اخبار کی اہمیت محسوس کی تھی۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے اپنے اخبار ہیں جس میں اردو میں بات ہوتی ہے لیکن مسلمانوں کو ہندوستان میں اکثریتی طبقے تک اپنی بات پہونچانے کے لیے ایک معیاری قومی انگریزی اخبار اور ایک طاقت ور میڈیا چینل کی ضرورت ہے جہاں سرسید کی طرح مسلمان اپنی بات اکثریتی طبقے تک پہونچا سکیں۔ سرسید نے اسباب بغاوت ہند کتاب لکھ کر انگریزوں تک اپنی بات پہونچانے کی کوشش کی۔ آج ہندوستان میں مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں ایسے میں سرسید کی طرح کسی اچھے قلم کار کی ضرورت ہے جو انگریزی میں مسلمانوں کی پوزیشن کو بیان کرسکے اور ان کے خیالات کی ترجمانی کر سکے۔ سرسید نے ایک نباض کی طرح اپنے عہد کا جائزہ لیا تھا اور اس کے مسائل کو جانا تھا۔انہوں نے اپنے رفقاء کے ساتھ علی گڑھ تحریک کی شروعا ت کی تھی۔ اور ادب میں اصلاح کی شعوری کوشش کی۔ ان کی رفیق حالی نے سوانح نگاری اور تنقید نگاری کو فروغ دیا مسدس مدوجزر اسلام جیسی شاہکار نظم لکھی۔ نذیر احمد شبلی’محسن الملک’وقار الملک وغیرہ نے جو کچھ کیا اس سے اردو زبان کو سادگی ملی۔ اردو میں ناول نگاری’مضمون نگاری’سوانح نگاری’تاریخ گوئی کو فروغ ملا۔ سرسید کی علی گڑھ تحریک کی طرح آج بھی ہمارے عہد میں ادبی اور تہذیبی و سماجی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ ادب میں جمود پیدا ہوگیا ہے۔
شاعری صرف واہ واہ تک رہ گئی ہے اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرنا ہی ہمارے شاعروں اور مشاعروں کا کام رہ گیا ہے۔ غالب اور اقبال جیسے شاعر اب ناپید ہوگئے ہیں۔ اس لیے خیالات میں بھی جمود پیدا ہوگیا ہے۔ سرسید کی حیات کے اس پہلو سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم ادب میں بھی اصلاح اور تبدیلی کی کوشش کرسکتے ہیں۔ سرسید کا بڑا کارنامہ تعلیم کو عام کرنا تھا اور سرسید نے اپنے عہد کے حالات کو بھانپ لیا تھا کہ آنے والے عہد میں انگریزی تعلیم کا ہی بول بالا ہوگا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام سرسید کا ہندوستانی مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ جس کی بدولت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے ایک حد تک تعلیم میں ترقی کی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان پنے طور پر اور حکومت سے کہہ کر زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کریں۔ کرناٹک ک علاقہ بیدر میں شاہین ادارہ جات کے تحت مسلمانوں کے کے جی تا پی جی اور میڈیکل کے تعلیم ادارے ہیں۔ دیگر ریاستوں میں بھی اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کر رہی ہیں اس جانب مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔ انگریزی سے اعلی تعلیم بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ابتدائی تعلیم تو مادری زبان میں ہو اس کے بعد ہم اپنے بچوں کو بین الاقوامی طور پر چلنے والی انگریزی زبان کا ماہر بنائیں تاکہ وہ دنیا کہ کسی بھی ملک میں جاکر کام کرنے کے لائق بنیں۔سرسید نے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی تھی۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کو آئی آئی ٹی’آئی آئی ایم اور اس قسم کے ادارے قائم کرنے اور ان میں اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرانے کی ضرورت ہے۔
سرسید نے انگریزوں سے رابطہ رکھا اور اپنے عہد کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ آج ہندوستان میں بیس کروڑ مسلمان ہیں ان کی سیاسی شناخت صفر کے برابر ہے۔ ان کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں بیرسٹر اسد الدین اویسی کے علاوہ کسی اور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی شناخت بنائیں۔ ایک مرکز سیاسی کے تحت متحد ہوں اپنے قائد کا انتخاب کریں اور سیاسی عمل میں اپنی عقل مندی کا ثبوت دیں۔ اس طرح سرسید کی حیات ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ ان کے کارنامے ہمیں ایک سرسید ثانی کے طور ہماری رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ اپنے عہدسے بھی کسی سرسید ثانی کو تلاش کریں اور اس کی رہبری میں اپنی زندگی کا سفر جاری رکھیں۔
Aslam Faroqui
تحریر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد draslamfaroqui@gmail.com