تحریر: نعیم الرحمان شائق اس امت ِ مرحومہ کو اس پر آشوب اور سخت دور میں اسوہ ِ حسنہ یعنی پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ پر عمل کرنے کی جتنی اب ضرورت ہے ، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سوچتا ہوں کہ ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟ ہم کبھی زمانے کے امام تھے ، مگر اب کیا ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ، تب سے ہم پر مصیبتوں کے دور کا آغاز ہوگیا۔
میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہم قرآن ِ حکیم کی تعلیمات پر کس طرح عمل کریں گے ، جب کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس پاک کلام کی تعلیمات کیا ہیں ؟ بالکل اسی طرح ، جب ہمیں آقا علیہ السلام کی پاک سیرت کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے تو ہم کیوں کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کر سکیں گے؟ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت ِ طیبہ کی حتی المقدور تشہیر کی جائے ۔ مکتبوں میں ، درس گاہوں میں ، کالجوں میں ، یو نی ورسٹیوں میں ، فیکٹریوں میں ، کارخانوں میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ۔ کیوں کہ آقا علیہ السلام کی سیرت انسانی زندگی کے ہر ہر گوشے کی رہنمائی اور تربیت کرتی ہے ۔ تعلیم ہو یا سیاست ، امور ِ خانہ داری ہوں ، یا تجارت ، معیشت ہو یا رہن سہن کے اطوار ، ہر جگہ اسوہ ِ حسنہ کی پیروی کرنا ہمارے لیے از حد ضرور ی ۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِ طیبہ ایک بحر ِ بے کراں ہے ۔ اس کا پورا پورا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ، نا ممکن ہے ۔ جی چاہتا ہے ، آقا علیہ السلام کی سیرت ِ پاک کے دو واقعات سے آج کی اپنی تحریر کو معطر کروں۔
Umar Farooq
1 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن میں حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالائی منزل پر تشریف رکھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم ِ مبارک پر صرف ایک تہہ بند تھا ۔ ایک کھری چار پائی تھی ، سرہانے ایک تکیہ پڑا تھا ، جس میں خرمے کی چھال بھری ہوئی تھی ۔ ایک طرف مٹھی بھر جو رکھے تھے ۔ ایک کونے میں پاے مبارک کے پاس کسی جانور کی کھال پڑی تھی ۔ کچھ مشکیزے کی کھالیں سر کے پاس کھونٹی پر لٹک رہی تھیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب دریافت کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی ،”یا رسول اللہ ! میں کیوں نہ روؤں ۔ چار پائی کے بان سے جسم ِ اقدس پر بدھیاں پڑ گئی ہیں ۔اس میں جو سامان ہے ، وہ نظر آرہا ہے ۔ قیصر و کسریٰ تو باغ و بہار کے مزے لوٹیں اور خدا کے پیغمبر و برگزیدہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان ِ خانہ کی یہ کیفیت ہو ۔ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ” اے ابنِ خطاب ! تم کو یہ پسند نہیں کہ وہ یہ دنیا لیں اور ہم آخرت۔”
Muhammad PBUH
یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت طیبہ کا مشہور واقعہ ہے ۔ اب ذرا غور کیجیے کہ ہم دنیا و آخرت میں سے کس کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ؟ ہمیں ان دونوں میں سے کون سی شے زیادہ مرغوب ہے؟ اسلام کا جھکاؤ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی طرف زیادہ ہے ، کیوں کہ وہ ابدی زندگی ہے۔ 2۔ قبیلہ ِ اراش کا ایک شخص مکہ مکرمہ میں اپنے اونٹ بیچنے کے لیے لایا۔ ابو جہل نے اس سے سارے اونٹوں کا سودا کر لیا ۔ اونٹ لینے کے بعد ابو جہل نے قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول شروع کر دی ۔ اراشی کئی روز مکہ مکرمہ میں ٹھہرا رہا ، مگر ابو جہل برابر حیلے بہانے کرتا رہا ۔ جب اراشی تنگ آگیا تو اس نے ایک روز حرم ِ کعبہ میں پہنچ کر قریش کے سرداروں کو اپنی بپتا سنائی اور فریاد کی کہ میری رقم ابو جہل سے دلوادو۔
میں ایک غریب الوطن مسافر ہوں ، خدا را میری مدد کرو ۔ جس وقت وہ قریش کے سرداروں سے فریاد کر رہا تھا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حرم ِ کعبہ کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے ۔ سرداران ِ قریش کو مذاق سوجھا تو انھوں نے اس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں مدد طلب کرنے کو کہا ۔ مظلوم اراشی اپنی فریا د لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ۔ دوسری طرف سرداران ِ قریش خوش ہو رہے تھے کہ آب مزہ آئے گا۔
Wronged Support
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس اجنبی مظلوم کی فریاد سن کر اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور ابو جہل کے مکان پر پہنچ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رعب دار آواز میں کہا ،”تم نے اس اراشی سے اونٹ خریدے ہیں ، فوراََ اونٹوں کی رقم لا کر اس شخص کو دے دو ۔”یہ ایک سچے کردار کی عظمت اور رعب کا نتیجہ تھا کہ ابو جہل نے مطلوبہ رقم اراشی کے سپرد کر دی۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں مظلوم کی حمایت کرنی چاہیے ،چاہے وہ مظلوم کسی اور قوم کا ہی کیوں نہ ہو ! اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ ِ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق ای میل : shaaiq89@gmail.com