تحریر : حافظ شاہد پرویز جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق نے گزشتہ روز منڈی بہائوالدین میں جماعت اسلامی کے رورل ایریا کے امیر کی وفات کے بعد مقامی گاوں ڈھوک کاسب میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ اجتماع کا عنوان تعزیتی ریفرنس کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ جس میں جماعت اسلامی کے صوبائی صدر سمیت ضلعی تنظیم جماعت اسلامی یوتھ اور دیگر ذیلی تنظیموں کے افراد نے انتظامات سرانجام دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ تاہم اجتماع میں دوران خطاب اور خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران مرکزی امیر سراج الحق نے اپنے نقطہ نظر اور جماعت اسلامی کی مرکزی پالیسی کو بہتر انداز میں صحافیوں کے سامنے پیش کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی ملک میں ایسا نظام دیکھنے کی خواہش مند ہے کہ جس میں صرف وزیراعظم نہیں بلکہ ملک میں موجود سبھی کرپٹ افراد کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ احتساب کے کٹہرے میں بلا تفریق تمام جماعتوں کے افراد کھڑے ہوں اور ایک ایسا کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے کہ جس کے تحت وہ کمیشن کرپٹ افراد سے کرپشن کی رقم واپس لینے بددیانت لوگوں سے حکومتی عہدے واپس لینے ان کی ناجائز پراپرٹی بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار رکھتاہو۔
انہوں نے عمران خان کے اس ویژن اور دعویٰ کو مسترد کیا کہ جس کے تحت دھرنوں اور ریلیوں کے ذریعے موصوف صرف میاں نوازشریف کے احتساب کی بات کرتے ہیں سراج الحق نے اجتماع میں اس بات پر بھرپور انداز میں زور دیا کہ 1947سے لے کر آج تک کی ہونے والی کرپشن کے سبھی کیسز کھول کر ان لیکن آغاز 2016سے ہونا چاہیے اور کرپٹ بدعنوان افراد کو طاقتور احتسابی کمیشن کے سامنے پیش کرکے ان کو ان کے کیے کی سزا دی جانی چاہیے میں اور جماعت اسلامی کسی بھی ایسی بات تحریک یا دعویٰ کو کبھی قبول نہیں کرتے کہ ہم یہ کہیں کہ ہمارے مخالفین کا احتساب ہو اور میری صف میں کھڑے ہونے والے افراد احتساب سے پاک رہیں۔
اگر ریاست پاکستان کبھی بھی احتساب کی بات کرے اور ایسا احتساب کہ جو کبھی فرد سے ہٹ کر پوری قوم یا تمام جماعتوں کیلئے ہو تو سب سے پہلے سراج الحق اور جماعت اسلامی کے وزیر ایم پی ایز ایم این ایز اور سینیٹرز احتساب کیلئے پیش کئے جائیں گے۔ انہوں نے پاکستان میں غربت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ اختیارات اور حکومت کے ثمرات کو عام افراد تک رسائی فراہم کروانے پر بھی زور دیا اور ان کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں ایسا نظام چاہتے ہیں کہ جو نہ صرف مذہبی روایات سے مکمل طور پر جڑا ہوا ہو بلکہ پاکستان کا وزیراعظم اذان پڑھے اور پاکستان کا صدر جماعت کروانے کے قابل ہو۔
Jamaat e Islami
جماعت اسلامی ملک میں اسلامی اشعار کی سربلندی کیلئے سیاست کرنے کو بہتر سمجھتی ہے۔ جبکہ اس موقع پر سراج الحق کی جانب سے 30اکتوبر کو بڑے عوامی اجتماع کا اعلان بھی کیا گیا تاہم ضلع میں قائم ہونے والے اس بڑے عوامی اجتماع میں خصوصی طور پر جماعت اسلامی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبرریاض فاروق ساہی نے اپنی خدمات فراہم کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر اپنے لیڈر کے استقبال کیلئے اقدامات کیے۔ جماعت اسلامی کا یہ ایک بڑا اکٹھ اور سراج الحق کا خطاب نہ صرف چھوٹے لیول کے کارکنوں اور تنظیم کے افراد کیلئے حوصلہ افزائی کا سبب بنا۔ بلکہ انہوں نے موجودہ سیاسی نظام اور کھینچا تانی کے حوالہ سے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم کے ذریعے ایک واضح پیغام بھی دیا۔
وہ پیغام جس کو ملک کی اکثریت سیاسی جماعتیں بہترنہیں سمجھتی ہیں اور ملک و قانون کی بالا دستی کیلئے سیاست میں کرپشن لاقانونیت منی لانڈرنگ سمیت دیگر غیر قانونی حرکتیں کرنے والے ایسے بددیانت افراد کیلئے یکساں احتساب کا عمل شروع کروانے سے نوازشریف بھی نہ بھاگے بلکہ مسلم لیگ ن نے کھلے دل سے احتساب کیلئے خود کو پیش کیا اور اپنی حکومت کے دوران سپریم میں کمیشن تشکیل دیا کہ جس کے ذریعے کرپٹ افراد کو کٹہرے میں لا کر ان سے باز پرس کرنے کے بعد اس بات کو دیکھا اور جانچا جائے کہ کون کرپٹ ہے اور اس کی کیا سزا بنتی ہے۔
دوسری طرف ایسے سیاسی جماعتیں جو کہ اپنے گروہ میں شامل چند افراد کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کیلئے صرف اور صرف پی ایم ایل این کے احتساب کی بات کرتی ہے تو تبھی قوم اور پاکستانی شہری ان کو مشکوک نظروں سے ضرور دیکھتے ہیں۔اگر دیانتداری ایمانداری اور نئے پاکستان کی بات کی جائے تو نیا پاکستان اور قوم کی تقدیر اس وقت تک نہیں بدلی جاسکتی کہ جب تک سراج الحق یا جماعت اسلامی کے نظریے سوچ پر مکمل طور سے عمل نہ کیا جائے۔