وزیراعظم نواز شریف نے تحریک انصاف سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کیلئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔سیاسی جرگے کے سربراہ اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی درخواست پر تحریک انصاف سے مذاکرات دوبارہ بحال کرنے کیلئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو خصوصی ہدایا ت دیتے ہوئے کہا گیاہے کہ تحریک انصاف کی قیادت سے جلداز جلد رابطہ کیا جائے اور ان کی مذاکراتی ٹیم سے بامقصد اور جامع مذاکرات کیے جائیں تاکہ اس مسئلے کو آئین اور قانون کے مطابق حل کیا جاسکے۔
تحریک انصاف سے مذاکرات سپریم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل ،الیکشن کمیشن کی ازسر نوتشکیل اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے کیے جائیں گے اور پہلے مرحلے میں براہ راست مذاکرات میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور اس کی تحقیقاتی مدت کا تعین کیا جائے گا ،حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کو آگاہ کیا جائے گا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کے لیے ایک ماہ وقت مقرر کرنے کے لیے تیار ہے
تاہم یہ قانونی معاملہ ہے ،اس حوالے سے حکومت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ازسر نو ایک درخواست ارسال کرے گی ،جس میں ان سے گذارش کی جائے گی کہ چیف جسٹس جلد از جلد انتخابات 2013 میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے تین ججوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیں جو ایک ماہ میں اس معاملے کی تحقیقات مکمل کرکے اپنی رپورٹ اور سفارشات مرتب کرے ،اب کمیشن کی تشکیل اور مدت کا تعین کا حتمی فیصلہ عدالت خود کرے گی۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اوردیگر مستعفی ممبران قومی اسمبلی کی رکنیت کے مستقبل کا فیصلہ سپیکر قومی اسمبلی کے ہاتھ میں ہے۔ قومی اسمبلی رولز اور آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت کوئی بھی ممبران ایوان کو بغیر بتائے غیر حاضر نہیں رہ سکتااور 40 دن سے زائد بغیر اطلاع غیر حاضری پر اس رکن کو ایوان کی قرارداد کی منظوری سے رکنیت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کو 40 دن سے زائد ہوگئے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئی جبکہ ان کے دیگر ارکان کو33 دن ہوگئے ہیں کہ وہ ایوان سے غیر حاضر ہیں اور چھٹی کی کوئی درخواست بھی نہیں دی۔17 نومبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے جبکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی طرف سے پی ٹی آئی کے ارکان کو اس مسلسل غیر حاضری کے حوالے سے یاددہانی کے خط لکھنے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اور دیگر غیر حاضر ممبران اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے ہاتھ میں ہے۔انہیں نا اہل قرار دے یا نہ دے اب بال سپیکر کے کورٹ میں ہے۔ان ممبران کو غیر حاضرہوئے 33 دن ہو چکے ہیں۔
Imran Khan
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ایوان سے غیر حاضر ہوئے 40 جبکہ دوسرے ممبران33 ہو گئے اور 17 نومبر کوآنے والے قومی اسمبلی کااجلاس نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ قومی ا سمبلی کے رولز نمبر44 کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی کی اجازت کے بغیر اس کے اجلاسوں سے متواتر چالیس دن تک غیر حاضر رہے تو سپیکر اس امر کو اسمبلی کے علم میں لائے گا اور اس پر کوئی رکن تحریک پیش کرسکتا ہے۔اس طرح غیر حاضر رہنے والے رکن کی نشست آئین کے آرٹیکل 64 کی شق دو کے تحت خالی قرار دیدی جائے گی۔شق 2 کے ذیلی قاعدہ (1) کے تحت پیش کردہ تحریک ایوان موخریا مسترد کر سکتا ہے۔اگر تحریک منظور کرلی جاتی ہے تو رکن کی نشست خالی قرار دی جائے گی۔
اگر نشست خالی قرار دیدی جائے تو سیکرٹریٹ گزٹ میں شائع کرنے کے لئے ایک نقل الیکشن کمیشن کو ارسال کرے گا۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان،شاہ محمود قریشی ،اسد عمر ،عارف علوی اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے دیگر اراکین نے استعفے دینے کے باوجود بطور ایم این اے اور ایم پی اے الیکشن کمیشن کو اثاثہ جات کی تفصیلات جمع کرا دی ہیں جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مستعفی ہونا بھی چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ قانون کے مطابق تو وہ یہ اثاثے جمع کرانے کے پابند نہ تھے۔ عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ 1976 کے سیکشن42ـA مستعفی رکن اسمبلی کو اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے کا پابند نہیں کرتا۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 14 اگست کو آزادی مارچ کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا
ان کی جماعت کے اراکین نے مشترکہ طور پر 22 اگست کو قومی اسمبلی میں جبکہ 27 اگست کو پنجاب اسمبلی میں اپنے استعفے جمع کروا دیئے اور دونوں اسمبلیوں کے سپیکروں اور جماعت اسلامی کی کوششوں کے باوجود تاحال تحریک انصاف کے ان اراکین نے اپنے استعفے واپس نہیں لئے اور ان کا اصرار ہے
استعفے قبول کئے جائیں لیکن اسی کے ساتھ عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر ،عارف علوی اور پی ٹی آئی کے دیگر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے استعفے دینے کے بعد ستمبر کے دوسرے عشرے میں بطور ایم این اے اور ایم پی اے اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو جمع کروائیں جو کہ ان کے مستعفی ہونے کے اعلان اور استعفے جمع کروانے کے اقدام سے متصادم ہے۔عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ 1976 کے سیکشن43ـA کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ہر سال 30 ستمبر تک گزشتہ مالی سال کے اثاثہ جات اور ذمہ داریوں کے گوشوارے جمع کروانے کے پابند ہیں۔مذکورہ قانون کے تحت صرف اراکین اسمبلی ہی الیکشن کمیشن کو گوشوارے جمع کروانے کے پابندہوتے ہیں۔
عام آدمی یا مستعفی ہونے والے اراکین کے متعلق یہ قانون کچھ بیان نہیں کرتا اور عمران خان سمیت تحریک انصاف کی طرف سے گوشوارے جمع کروانے والے اراکین نے مستعفی کی بجائے ریگولر ایم این اے اور ایم پی ایز کی حیثیت سے گوشواروں کی تفصیلات جمع کروائیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے گزشتہ روز جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی سے صرف تین اراکین نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کروائیں اور ان تینوں کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ان میں پشاور کے ساجد نواز کوہاٹ کے شہریار آفریدی اور ایبٹ آباد کے ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون شامل ہیں۔
اسی طرح پنجاب اسمبلی سے اب تک گوشوارے جمع نہ کروانے والے کل 8 میں سے5 ارکان تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں راولپنڈی سے ملک تیمور مسعود، میانوالی سے ڈاکٹر صلاح الدین،لاہور سے میاں محمد اسلم اقبال،ساہیوال سے وحید اصغر ڈوگر اور لیہ سے عبدالمجید خان نیازی کے نام شامل ہیں جبکہ گوشوارے جمع نہ کروانے والے پنجاب کے دیگر تین ایم پی ایز کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے مالی سال 2013ـ14 کے گوشوارے جمع کروانے کے لئے اراکین اسمبلی کو پہلا نوٹس 4 جولائی کو جاری کیا۔جس میں مطلع کیاگیا
تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی 30 ستمبر تک یکم جولائی 2013 سے 30 جون 2014 ء تک کے اثاثہ جات اور ذمہ داری کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو جمع کروائیں جس کے جواب میں پی ٹی آئی کی قیادت سمیت پارٹی کے دیگر اراکین نے ستمبر کے دوران حتمی تاریخ سے قبل ہی گوشوارے جمع کروا دیئے تھے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ عوامی نمائندگی کا قانون مستعفی ہونے والے ممبران سے اثاثہ جات کی تفصیلات طلب کرنے کے حوالے سے خاموش ہے۔