تحرر: ارشد سلہری احتجاجی تحریک عمران خان اور طاہرالقادری کی قیادت میں جاری ہے جس میں لاکھوں لوگ شریک ہیں۔ دھرنوں کے عمومی اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں لیکن پڑنے والے تمام تر اثرات کے باوجود جاری احتجاج عوامی تحریک کا روپ دھارنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی پہلی اور اہم وجہ دونوں جماعتوں میں کسی قسم کی ہم آہنگی نہیں ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری اپنی اپنی انا کے خول سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔
دونوں امامت کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایکدوسرے کے پچھے نماز کے لئے کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہیں حالانکہ دونوں جماعتوں میں کئی امور پر اتفاق بھی ہے اس کے باوجود دونوں جماعتوں میں اتحاد نہیں ہو سکا اور دونوں جماعتیں ایک ہی مقام پر الگ الگ دھرنے دیئے ہوئے ہیں ۔ اس روش سے بھی عوام کشمش کا شکار ہیں کہ وہ قادری کے دھرنے میں جائیں ہا عمران خان کے آزادی مارچ کا حصہ بنیں اور دونوں جماعتوں کا یہ طرز عمل عوام نے پسند بھی نہیں کیا ہے۔
دوسری وجہ دونوں جماعتوں نے عوامی مسائل کو فوکس کرنے کی بجائے حکومت کے خاتمے کو ہدف بنایا جس سے عوام کے اندر شکوک پیدا ہوئے اور عوام نے آگے بڑھنے سے گریز کیا اور محض دیکھنے پر اکتفا کیا جبکہ عوام حکمرانوں سے تنگ ہے۔ایسا لگتا ہے کہ عوام اب دھوکہ نہ کھانے کا قطعی فیصلہ کر چکی ہے۔ شریف برادران سے ڈسے عوام اب عمران اور قادری کے نعروں اور وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں کیونکہ دھرنوں کے سٹیج پر کھڑے لوگ ایک ہی طبقہ سے ہیں شریف برادران اور ان میں صرف ایک ہی فرق ہے کہ وہ حکومت سے باہر ہیں اور شریف برادران حکمران ہیں۔
Nawaz Sharif and Shahbaz Sharif
تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ جاری دھرنے عوام کی بجائے طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ایک جانب خاص مذہبی نقطہ نظر رکھنے والے لوگ ہیں اور ان کی قیادت پاکستان کی متنازع ترین شخصیت طاہر القادری کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ممی ڈیڈی کلچر اور ایلیٹ کلاس ہے جس کی نمائندگی پاپولر فنامنا عمران خان کر رہے ہیں۔ دونوں جانب محنت کش طبقے اور عام عوام کی نمائندگی نہیں ہیں۔ چوتھی وجہ دونوں جماعتیں کسی بھی قسم کے سیاسی نظریات سے عاری ہیں۔ جامع حکمت عملی اور نظم کا فقدان ہے۔ ایک جانب نظم و ضبط ہے مگر وہ سیاسی نہیں مذہبی اور روحانی ہے۔ طاہرالقادری کو اپنی جماعت میں سیاسی قائد کی بجائے روحانی پیشوا کی حیثیت حاصل ہے اور وہ کچھ دن پہلے شیخ السلام تھے ۔جبکہ دوسری جانب نظم و ضبط ہے، نظریہ، تنظیم اور جامع حکمت عملی کے بجائے دولت کا کھیل اور عمران خان کی مقبولیت ہے۔ نوجوان لڑکیوں کی شرکت ہے۔ کرشمہ ہے بھی ہے آج بھی نوجوان لڑکیاں عمران خان کو للچائی ہوئی نظر وں سے دیکھتی ہیں۔دھرنے کی رونق کا یہ بھی ایک کارن ہے۔
پانچویں وجہ دونوں رہنماوں عمران اور قادری کے احتجاج کے پچھے کسی قوت کے ہاتھ ہونے شبہات ہیں۔ عوام میں عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ سارا ڈرامہ پرویز مشرف کو بچانے کے لئے رچایا گیا ہے۔ حالات اس امر کی چغلی بھی کھاتے ہیں کہ جس طرح پرویز مشرف کا ایشو کھڑا کیا گیا اور پرویز مشرف جس طرح چھپتے پھر رہے تھے اور اپنے گھر میں ہی قید کردیئے گئے تھے۔ دوسری جانب حکمران جملے بازی کرتے ہوئے پرویز مشرف کو رسوا کرتے تھے۔ افواج پاکستان کو اپنے سابق جرنیل کے ساتھ ایسا سلوک پسند نہیں آیا جس پر عمران اور قادری کو باہر نکالا گیا ہے۔
دھرنوں کی ناکامی کے مذکورہ اسباب کو عوامی حمایت کے تناظر میں دیکھا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا، حکومت کے خاتمے اور وزیراعظم کے استفا کے معاملے میں رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ماضی میں جھانکا جائے تو حالات و واقعات ایسے دیکھائی دیتے ہیں کہ حکومت یا وزیر اعظم کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ گو نواز گو کا نعرہ خواہ مخواہ ہر گز ہر گز نہیں ہے۔ عدالتوں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ نااہلی سمیت قتل اور اقدام قتل کے مقدمات ایسی تلوار ہیں کہ جس سے حکمرانوں کا بچنا ممکن نہیں ہے۔ رائے عامہ بھی نواز حکومت کے خلاف ہموار ہو چکی ہے۔ اب کوئی بھی فیصلہ آجائے عوام اس اپنا ردعمل وہ نہیں دیں گے جس امن و امان کی صورتحال پیدا ہوں۔ دھرنوں یہ ناکامی آخری منظر میں کامیابی سے تعبیر کی جائے گی۔ آج کی حکمت عملیا ں اور ایکشن ماضی سے مختلف ہیں فوج بھی سیاست سے واقف ہوچکی ہے اور افواج پاکستان کو بیک وقت کئی محازوں کا سامنا بھی تو ہے۔