دھرنوں میں بھونڈے حربوں کا استعمال۔۔۔۔۔۔یہ سیاست نہیں ملک اور قوم کا مذاق بنانے کے مترادف ہے مہذب معاشرے میں ایسے عمل کو نا پسند کیا جاتا ہے کیا ہم اس روایات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ہر گز نہیں ہم اس کی مزمت کرتے ہیں، احتجاج ایک فرد بھی کرے تو پوری دنیا اس کے احتجاج کو لائق کریگی وہ بھی اس صورت میں کہ آیا وہ جائز ہو اور غیر اخلاقی طریقے سے لاکھوں کا مجمع بھی ہوتو اس کو دنیا کے مہذب افراد مسترد کر دیں گے دوسری جانب وقت حکمراں بھی ایک فرد کی حقیقی آواز کو اس فرد کے کہنے سے قبل اس کے مسائل پر نہ کہ توجہ دے بلکہ اس کے حل کے لئے ایسا طریقہ وضع کرے کہ دنیا وقت حکمراں کے اقدام کو سراہائے لیکن پاکستان میں اس امر پر توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجے میںآج معاشرتی نظام دھرم بھرم ہو کر رہ گیا ہے۔
ہمارے یہاں جو روایات چل پڑی ہے اسے کس طرح ختم کرنا ہے اس پر غور ہی نہیں بلکہ فکرو شعور کے زریعے آگاہی دینی ہے اور یہ عمل اس وقت کامیاب ہوگا جب حکومت بھرپور طریقے سے حقیقت پسند لوگوں کے ساتھ تعاون کرے اس کے لئے شعوری ادارے قائم کئے جائیں۔ جائز مطابات کے سلسلے میں پرُامن مہذب انداز میں احتجاج کرنامعاشرے کے ہر فرد کا بنیادی آئینی و قانونی حق ہے لیکن معاشرے کے دوسرے فرد کے حق کا بھی یقینی خیال رکھے اور حکومت کا بھی بنیادی فرض ہے کہ وہ احتجاجی مظاہرہ کرنے والا یا کرنے والے ایک لمحے کے لئے یا پھر طویل دورانیہ کے طور پر کرے اور احتجاج جاری رکھے تو اس کے لئے وہ تمام سہولت فرہم کرے جس میں انہیں کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اب موجودہ ملک کی صورتحال جو کہ اس وقت دو احتجاج گزشتہ روز سے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے نام سے جاری ہیںجو اب دھرنوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں ان دوران ان احتجاجی آزادی اور انقلابی مارچ دھرنوں میں جو بھونڈے حربوں کا استعمال ہوا اس سے ملک وقوم کا مذاق بنا جس سے انتہائی تشویش ہے کاش ایسا عمل نہ ہوتا۔
دوسری جانب حکومت کا دونوں احتجاج کرنے والوں سے ان کے مطابات کے سلسلے میں جو مزاکرات ہوئے وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچے جبکہ حکومت نے ایک آزادی مارچ فریقین کے چھ ٦ مطالبات میں سے پانچ ٥ مطالبات مان لئے اور دوسرے انقلابی مارچ فریقین کے دو ٢ میں سے ایک مطالبہ مان لیا لیکن دونوں فریقین جن میں ایک آزادی مارچ اور دوسر انقلاب مارچ کے فریقین نے حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا حکومت نے جو دونوں کے ایک ایک مطالبہ ماننے سے انکار کردیا وہ دونوں فریقین کا مطالبہ تھا کہ جن میں ایک آزادی مارچ کا مطالبہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمڈ نوازشریف استعفیٰ دے دوسراانقلاب مارچ کا مطالبہ پنجاب وزیر اعلی میاں شہباز شریف استعفیٰ دے جبکہ انقلاب مارچ جن کا بنیادی مطالبہ سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کرانے پر جن میں اکیس افراد وزیر اعظم وزیر اعلیٰ پنجاب حکومتی سات وزیر اور دیگر شامل ہیں اس پر بھی حکومت نے اس سانحہ پر افسوس کا اظہار بھی کیا اور مقدمہ درج کروانے پر بھی رضا مندی ظاہر کی اس طرح دیکھا جائے تو حکومت نے ہر معاملے میں لچک کا مظاہرہ کیا سوائے وزیر اعظم اور وزیر اعلٰی پنجاب کے جبکہ بنیادی طور پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے جس پر گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینٹ نے غیر آئینی مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔
Freedom March
اس کے علاوہ حکومت نے ان احتجاجی آزادی مارچ انقلاب مارچ کے احتجاج کے دوران انتہائی حکمت عملی اور مدبرانہ تدبرانہ رویہ کے طور پر مظاہرہ کیا بہر حال مذاکرات ناکام ہوگئے اور احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں نے دارالحکومت اسلام آباد شاہرہ دستور پر ہنوز اپنے اپنے دھرنوں کو جاری رکھنے پر بضد ہیں کہ دھرنے ختم ہو یا رہیں دھرنے٭اب جو بھی فیصلے حکومت کو کرنے ،،،،،،،،،،، ہیں۔۔۔ اس سلسلے میں حکومت کو ایک پر امن موجودہ اور آئندہ کے لئے ایک مستند تجویز ہے کہ ان احتجاجی دھرنوں والوں کو جن کا ارادہ ہے کہ یہ دھرنے جاری رہیں گے تو ان کیس جان ومال کی حفاظت کی جائے اور ان کو ماقول جگہہ دے دی جائے تاکہ کسی اور کی نہ حق تلفی ہواور نہ ہی کسی کوپریشانی کا سامنا کرنا پڑے، اس کے علاوہ ان احتجاجی دھرنوں میں شامل مرد عورتیں اور بچوں بوڑھوں کی مکمل دیکھ بھال کھانے پینے اور ہر قسم کی خوراک شامیانے اور دیگر ضروری اشیا ء فراہم کی جائیں اور ایمرجنسی کے طور پرایمبولینس کا بھی انتظام کیا جائے اسکے علاوہ ان مظاہرین یعنی دھرنوں میں میٹرینٹی ہوم (زچگی) کیمپ بنایا جائے تاکہ ان مظاہرین کو حکومت کی جانب سے شکایت کا موقع نہ ملے اور اس طرح حکومت اپنا حکومتی کام انجام دیتی رہے۔
مزید احتجاجی دھرنے دینے والوں کی ذمہ داری اخلاقی وآئینی طریقے سے اور پرامن مہذب انداز میں عائد ہوتی ہے لہذا حکومت ان مظاہرین سے دیکھ بھال اور نگرانی کے طور پر مسلسل رابطے میں رہے نہ جانے کب یہ اپنے مطالبات میں لچک پیدا کرلیں ا ور معاملہ حکومت اور ان احتجاجی مظاہرین کے درمیان پر امن طریقے سے طے پاجائے اور اس طرح ملک اور قوم کا معیار بلند ہوگا۔
دیکھا جائے تو احتجاج کرنے والوں کو حکومت سے مطالبات جو کہ جائز ہیںمنوائے گئے ہیں کامیابی ہوئی ہے اور حکومت نے بھی جو جائز مطالبات تھے اسے مانا یہی ہمارے اخلاق کی پاسداری ہے لیکن پھر بھی حکومت کا کام ہے آئین و قانون میں جو عوام کو بنیادی ذمہ داری اپنانے کی دی ہے اُس میں حکومت کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ کرے اور عوام کا بھی اسی طرح جو کہ آئین اور قانون میں بنیادی فرض نبھانے کی ذمہ داری دی گئی ہے اُسے پوری طرح انجام دے، اللہ تعالیٰ نے ملک کے ذریعے نعمتیں اور سہولتیں دی ہمیں پہچان دی اس کی حفاظت اور ملک کے قوانین کا احترام کریں اور ملک کی آزادی اور اس کی خود مختاری پر آنچ نہ آنے دیں اور ہر خطرے سے نمٹنے کے لئے دشمن کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملادیں اور ملک کے ایک ایک انچ کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوں جس نے ماں بن کر ہمیں پالا اسکی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہو جائیں۔جس طرح ملک پاکستان کی پاک افواج ملک وطن کے لئے اپنے نذرانہ پیش کررہی ہے۔۔
سلام انکی عظمت اور جرات اور بہادری کو ذبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ہم شانہ بشانہ پاک فوج کے ساتھ ہیں اور پاک فوج کا ملک کی خدمات میں کردار ہمارے لئے سر فخر سے بلند کرنے کا انعام ہے جس کے وقار کو مذید بلند کرنے کے لئے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے یہی عزم پاکستان ہے، تاکہ ملک وقوم ہر طرح کے بحران سے نمٹنے کی صلاحیت رکھے کیونکہ مسائل کم ضرور ہوتے ہیں ختم نہیں ہوتے اصولی جدوجہد جاری رہے اسی میں ملک پاکستان کی سالمیت و استحکام و اسکی تعمیر و ترقی خوشحالی منحصرہے کیوں کہ پاکستان میں بلاجواز مسائل کو پیدا کرنے سے ملک کو شدید معاشی اقتصادی مالی وجانی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے جس کا اندازہ موجودہ صورتحال سے لگایا جائے کہ کھربوں روپے کا نقصان اور ملک کی ترقی میں رکاوٹ کے علاوہ عوام ذہینی اذیت میں مبتلا ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے (آمین)۔۔