تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید پاکستان کے جنرلز اور ججز، ان دونوں کرداروں یہ کھیل جو آج اسٹیج ہو رہا ہے گذشتہ 70 سالوں سے جاری ہے۔ اس کھیل میں شدت اُس وقت سے ہے جب سے بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایوب خان جیسے بد طینت فوجی کو شٹَ اپ کال دے اس کے بیج اتروالئے تھے۔ (اسی ایوب خان نے اپنی ڈکٹیٹر شپ کے دوران بانیِ پاکستان کی بہن جن کو قوم مادرِملت کہہ کر پکارتی تھی، محترمہ فاطمہ جناح کو غدارِ وطن قرار دیا تھا)آج،’’ عجب رسم چلی ہے کوئی نہ سر اٹھا کے چلے جو سر اٹھاکے چلے وہ سر جھکا کے چلے‘‘کے مصداق اداروں میں بیٹھے لوگ سیاست کا شہسوار بننے کیلئے بے قرار دکھائی دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کو اس بات کی بھی شرم نہیں ہے کہ ایک شخص جس کوپاکستان کی عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا اور اعتماد کا ووٹ دے کر پارلیمنٹ نے نا صرف اسے پاکستان کا اگزیکٹیوبنایا۔ اس کے تقرر کئے گئے لوگ اپنی ر عونت کے بل پر اسے ڈکٹیٹ کرنے کی کوششوں میں امصروف دیکھے جاتے رہے ہیں۔ تو ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا دکھائی دیتا ہے۔نوازشریف کا سیاسی راستہ روکنے کے لئے وہ تمام ادارے اور سیاسی قوتیں یکجا ہورہی ہیں۔جن کو خوف ہے کہ ’’(پنجابی میں)شیر اِک واری فیر‘‘کا ملک میں ایک بار پھر غلغلہ نہ پیدا ہوجائے! جو نوشتہِ دیوار بھی بن چکا ہے۔ اس ڈرٹی گیم کا ایک سین ساری قوم نے ناموسِ رسالت کے نا م پرپنڈی اسلام آباد اور لاہور کے دھرنوں کی شکل میں دیکھا۔جہاں فوج کا ایک افسر کرائے کے نام پر دھرنوں میں لائے گئے لوگوں کو، ان کے معاوضے کے چیکس بانٹ رہا تھا۔دوسرا درامہ ٹیج کیا جانے ولا ہے جس میں وہ تمام سیاسی قوتیں جو ووٹ کے بل پر ایوان میں آنے کے قابل نہیں ہیں ایک غیر ملکی ایجنٹ کی سر کردگی میںیکجا ہو کر حکومت پر شب خون مارنے والی ہیں۔مقصد وہ ہی پرانا ہے کہ حکومت کو مارچ کا سورج نہ دیکھنے دیا جائے۔
گذشتہ ساڑے چار سالوں میں سے دھرنوں کے رکھوالوں نے جو دھما چوکڑی ملک میں مچا ہوئی ہے، اسے ساری دنیا اور پاکستانی خاص طور پربغور ملاحظہ کر رہے ہیں، اور تمام ہی محوِ حیرت ہیں کہ پاکستان کیا سے کیا ہوجائے گا! بعض ادارے نہ جا نے کس ایجنڈے کے تحت پاکستان کی ترقی میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ دوسری جانب انصاف کے ایوانوں سے بھی جانبدارانہ فیصلے آرہے ہیں جو محض نواز شریف اور اس کی پارٹی ن لیگ کو نیچا دکھانے کے لئے دیئے جا رہے ہیں اور پھر قسمیں کھا کھاکر لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ میرٹ پر فیصلے کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف اور عمران نیازی کے یکساں کیسوں میں یکساں فیصلے دیئے گئے؟نواز شریف کا ٹرائل (ٹرائیل کورٹ نہ ہونے کے باوجود)دِنوں کی تاریخیں دے دے کر تیزی کے ساتھ انہیں گاڈ فادر اور سیسلین مافیہ کے ساتھ صادقاور امین نہ ہونے کا لیبل چسپاں کر کے ساری دنیا میں ذزلیل کرنے کی کوشش کیگئی اور وزارتِ عظمیٰ اور اسمبلی سے ہٹا ہمیشہ کیلئے فارغ کردیا گیا ؟جبکہ عمران نیازی کاکیس اس قدر سست روی سے چلایا گیا کہ 405 دنوں کی لمبی مدت میں اس کو صادق و امین قرار دے کر کلین چٹ اس کے ہاتھ میں تھمادیگئی! کیا ایک یہودی عورت جمائمہ کا خط قرآن و حدیث کی کا فرمایا ہوا تھا ؟جس کو عدالت نے سچ کا سرٹیفکیٹ دے کر انصاف کا مذاق اڑوایااور قطری خط اتنا ہی غیر اہم تھا! کہ اُس کو مسترد کر دیا گیا؟ اگر قطری خط کی اہمیت نہ تھی تو جمائمہ کا خط ان انصاف کے رکھوالوں کے لئے اہمیت کا حامل کیسے بن گیا؟
نیازی سروسز کا عمرن نے خود اعتراف کیا جس کے وڈیو بیان کو کبھی بھی دیکھا جاسکتا ہے۔جس کی صفائی خود بینچ نے پیش کی۔بڑی عجیب بات یہ ہے کہ جو شخص اعتراف کر رہا تھا اُس کو کلین چٹ دیدیگئی اور جس نے تنخواہ لی ہی نہیں اس کو تعاویلات پیش کر کے اثاثہ بنا دیا گیا اور سیٹنگ وزیر اعظم کو ہمیشہ کے لئے فارغ کر دیا گیا!عدالت کا دہرا معیار دنیا میں کہیں بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ملک میں گریٹر پلان کے مہرے اب خود بخود بے نقاب ہوتے چلے جا رہے ہیں بقول عابد منٹو چیف جسٹس کو قسم کھانا پڑ رہی ہے ! پاکستان کے عوم سوال کرتے ہیں کہ عدالت نے عمران کے کاغذات نامزدگی 1997کے کیوں نہ منگوائے؟اس جانب داری سے لوگوں کا عدالت سے ایمان اُٹھ چکا ہے۔سابق جسٹس وجہہ الدین کہتے ہیں کہ فارن فنڈنگ کیس پر پانچ سال کی قدغن لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کہنا ہے کہ نواز شریف کیس میں بھی یہ ہی حالات و وقعات تھے مگر ریلیف نہیں دیا گیا۔جبکہ عمران خان کیس میں ریلیف دیدیا گیا! بابر ستار پاکستان کے جانے مانے وکیل کہتے ہیں کہ عمران خان کے مقدمے کے عدالتی فیصلے سے پاکستان کا آئینی توازن تبدیل ہو جائے گا۔فیصلے سے جمہوری اداروں کی طاقت کم اور غیر نمائندہ اداروں کی قوت بڑھتی جا رہی ہے۔پاکستان کے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ عمران نیازی کے مقدمے میں اس قدر نرمی کیون کی گئی؟جبکہ اس مقدمے کی شروعات کے بارے میں فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’عمران خان کے خلاف مقدمے کی سماعت کی وجہ پاناما پیپر کے منظر عام پر آنے کے باعث عالمی سطح پر دیگر وجوہات کے علاوہ کرپشن کے خلاف عوامی ردعمل کی وجہ سے سپریمکورٹ میں چلایا گیا۔
ایک ہی کیس میں بھول کی دو مختلف تعریفیں دی گئیں ایک کو ہلال قرار دیدیا گیا تو دوسرے کو حرام۔ایک میں بد دیانتی ہوئی اور دوسرے نے بد دیانتی نہیں کی۔ آج ملک کے عدالتی نظام میں سنگین خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں۔یہ ادارہ اب لوگوں کو انصاف فراہمکرنے کے قابل نہیں رہا ہے۔پاناما میں جس طرح و اٹس ایپ کالزپر جے آئی ٹی بنائی گئی ایک خاس اینٹیلجینس ایجنسی کو پییم ہاؤس کے فونز ٹیپ کرنے کی اجازت د یگئی اور یہ بھی سب کے علم میں ہے کہ میڈیا کی دستاویزات کس طرح تیار کرائی گئیں؟یہ بھی بات سامنے آچکی ہے کہ ایک انٹیلیجینس ایجنسی کے افسر نے کن مقاصد کے تحت احتساب عدالت کے اس جج سے ملاقات کی جو احتساب عدالت میں نواز شریف فیملی کے خلاف سماعت کر رہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ججوں اور ان عدالتوں کے موجودہ کردار پر کون فیصلہ دے گا؟جب نکہ کئی سپریم کورٹ کے جج پالاٹوں کی بندر بانٹ میں بھی پیش پیش دیکھے گئے ہیں۔
’’چھاج بولے تو بولے چھلنی بھی جس میں سوچھید‘‘!اب آیئے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی بھی سُنئے۔کہتا ہے کہ عمران ایماندار انسان ہے کرپشن نہیں کر سکتا !توبھئی آپ نے ایسے ایماندار شخص سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟وہ تو جی جان سے آپ کا وزیر اعظم بننے کیلئے پر تولتا رہا تھا۔مگر آپ نے ایسے ایماندار شخص کو چھوڑ کر کیوں شوکت عزیز کو امپورٹ کر کے وزیرِ اعظم بنا لیا تھا؟پاکستان کے بائس کروڑ لوگ ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتے ہیں دھرنوں اور انصاف کے رکھوالو پاکستان پر رحم کھاؤ۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.co