تحریر : شیخ خالد زاہد دنیا میں سیاست کسی پیشے سے کم نہیں ہے۔ باضابطہ طور پر انتخابات میں شرکت کے بعد اقتدار سنبھالنے سے لے کر اگلے انتخابات تک تقریباً دنیا کے تمام ممالک میں منتخب نمائندے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دیتے ہیں اور اس کی گواہی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال سے لگایا جاسکتا ہے۔ معینہ مدت میں اپنی کاردگی کا اندازہ اگلے انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے اور ناکامی کی صورت میں گھر چلے جاتے ہیں اگر بدعنوان ہوتے ہیں تو عدالتوں کا سامنا کرتے ہیں، بعض ملکوں میں تو غیرت کی خاطر خود کشی تک کر لیتے ہیں۔
اب تومجھے یہ لکھتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے (اگر کسی دن پاکستان کو زبان مل گئی تو وہ مجھ سے یہ ضرور پوچھے گا کہ بھائی مجھ پر آسانی آئی کب تھی)، یا پھر اس ترین لفظ کی کوئی مختلف قسمیں ہوتیں جو اسکی مزید وضاحت کرتیں۔ گزشتہ دنوں حکومت وقت نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس پاکستانیوں تو کیا دنیا جہان میں رہنے والے پاکستانیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ہم مسلمانوں کیلئے ہمارے پیارے نبی ﷺ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے، میں، میرا خاندان میرے نبی ﷺ پر قربان۔ ختم نبوت پر ایمان اسلام کے بنیادی اراکین میں ایک ہے اور یہی پاکستان بنانے کی اساس ہے۔ اگرکوئی ہمارے پیارے نبی ﷺ پر ختم نبوت کا یقین نہیں رکھتا تو اسلام سے وہ خارج ہے اور الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی رو سے وہ غیر مسلم ہے تو اسے انتحابات میں جہاں مذہب کا اندراج کرنا ہوگا وہاں اپنا مذہب یا غیر مسلم لکھنے ہوگا۔ اس میں رہتی دنیا تک کیلئے کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی۔ حکومتِ وقت نے اس کائناتی سچائی میں ترمیم کرڈالی یعنی حکومت وقت نے نااہلی کا بھرپور ثبوت پیش کر دیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی یہ نا صرف ہمارے عقیدے پر باقاعدہ حملہ سمجھا جائے گا اور اس حملے کے پیچھے جو لوگ کار فرما ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائیگا۔
بظاہر تو یہ مسلۂ حل ہوگیا اور ترمیم واپس لے لی گئی مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کو صرف پاکستان کہلوانے میں مصروف عمل ہیں۔ کیا ہمارے علمائے کرام کسی مسلۂ پر ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے اور ختم نبوت کا مسلۂ کسی مخصوص طبقے یا مسلک کا تو ہے نہیں پھر ان دھرنا دینے والوں کو دھرنا دینے کی نوبت کیوں پیش آئی۔ اب حکومت ِ ان دھرنا دینے والوں سے مذاکرات کی ناکامی کی باعث ایک بار پھر سے فوج کی جانب دیکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا سانحہ ابھی ذہنوں سے محو تو نہیں ہوا ہوگا۔راولپنڈی اور اسلام آبادکے درمیان ایک جگہ ہے فیض آباد جہاں پر ختم نبوت کی شق ختم کرنے والے اور اس پر کام کرنے والوں کو سامنے لانے کیلئے دھرنا دیاگیا ہے۔ اس دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں میں ٹریفک کی صورتحال ابتر ہو کر رہ گئی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں جس کی بنیا د ہی اسلام ہو اور اسلام کی بنیاد ہی ختم نبوت پر ایمان ہو تو اس قانون میں کوئی تبدیلی کی تو جانے دیں سوچا کیسے جاسکتا ہے۔
دھرنا ابھی جاری ہے جڑواں شہروں کے شہری ٹریفک کے اضافی مسائل سے دوچار ہیں کہ ایک اور دل سوز واقع کوئٹہ میں رونما ہوگیا جہاں لوگوں سے گولیاں مارکر انکی زندگیاں چھین لی گئیں اس واقع سے ایک بار پھر پوری قوم کو گہرا رنج و صدمہ ہوااور خوف و ہراس کی چادر تان دی گئی۔ اس سانحہ کے پیچھے کیا محرکات ہیں اس کا تو پتہ بعد میں چلے گا لیکن اسے لسانیت کی نظر نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ کوشش ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے پہلے ہی انگلستان کی بسوں پر لکھا گیا جملہ پاکستانیوں کیلئے تکلیف کا باعث ہے جس میں فری بلوچستان کے الفاظ جلی حروف میں آویزاں ہیں۔ جو وہاں رہنے والے پاکستانیوں کیلئے ایک سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔ بظاہر بلوچستان میں امن ہوچکا ہے عسکری قیادت نے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں اور پھر ایسا واقع ناقبل برداشت تصور کیا جانا چاہئے۔
پاکستان مسلسل سیاسی بحران کی ذد میں ہے اور اس بحران کا سبب سیاستدانوں کی ضد اور انا کے سوا کچھ نہیں دیکھائی دے رہا، مگر دیکھنے والی آنکھیں شائد بتا سکیں کے کس سیاستدان کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جا رہی ہیں۔ اس سارے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہے۔ محسوس یہ ہوریا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی کچھ تذبذب کی شکار دیکھائی دے رہی ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ کیا کچھ جا رہا ہے اور ہو کچھ رہا ہے۔ جمہوریت کی بقاء کی آوازیں لگانے والے آج خود جمہوریت کو اپنی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔
راکی موجودگی کی گواہی تو کلبھوشن نے دے دی ہے، جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کی صرف ایک سیاسی جماعت ہی بطور را کی ایجنٹ نہیں بلکہ ہر جماعت میں مختلف ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ موجود ہیں جو کبھی بھی پاکستان کو مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ آئے دن ہمارے سرحدی علاقوں پر بھاری اسلحے سے فائرنگ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ہمارے دیگر پڑوسیوں کو بھی ہمارے خلاف ایسی کاروائیاں کرنے کو کہنا اور اس پر دھمکی آمیز بیانات دینا۔ کراچی میں ایک بار پھر لوگ لاپتہ ہونا شروع ہوگئے ہیں، اگر ہماری خفیہ ایجنسیاں کراچی میں لوگوں کے اس طرح غائب ہونے کا نوٹس نہیں لینگی تو پھر عوام کہاں جائے گی۔
برس ہا برس سے ایسا ہوتا چلا آرہا ہے کہ ملک جب کبھی بھی ترقی کی شاہراہ پر پیش قدمی شروع کرتا ہے اس طرح کے غیر معمولی واقعات تیزی سے رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور ہمارے ملک کو ہر بار غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس غیر یقینی کا فائدہ ہمارے دشمنوں کو ہوتا ہے جیسا کہ ماضی میں بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں پر پابندی لگ گئی اور بین الاقوامی سرمایا کاری رک گئی۔ ہمارے دشمن نے یہ تو دیکھ اور سمجھ لیا ہے کہ ہماری افواج کسی سے ڈرنے والی نہیں ہیں اور دہشت گردی کا کیسا منہ توڑ جواب دیا ہے کہ ساری دنیا ہی حیرت زدہ دیکھائی دیتی ہے۔ مذکورہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی ساری سیاسی اور مذہبی جماعتوں ایک ہونا پڑیگا ورنہ ہمارا یہ دشمن ہماری سالمیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ رہا ہے مگر معلوم نہیں کہ ہم سمجھ نہیں رہے یا سمجھ نہیں پا رہے۔