تاریخ اسلام میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی کے خلاف دھرنا دیا ہو، یا آپکے پیروکاروں، صحابہ کرام، نے کبھی کسی کے خلاف دھرنا دیا ہو۔
تاریخ اسلام میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے پیرو کاروں نے کبھی کسی کے خلاف دھرنا دیا ہو۔ البتہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اسلام دشمن لوگوں نے دھرنے دیئے جسکی کم از کم تین مثالیں پیش خدمت ہیں۔
سب سے پہلے ہجرت کی رات رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے باہر تمام کفار مکہ نے ملکر دھرنا دیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان لینا چاہتے تھے لیکن وہ ایک سچے نبی تھے ، خدا نے انہیں محفوظ رکھا ۔ دوسری مثال یہ عرض کروں گا کہ خلیفہ سوم حضرت عثمان کے گھر کے باہر اسلام دشمنوں نے ایک دھرنا دلوایا جو دو ماہ تک جاری رہا اسکے نتیجہ میں حضرت عثمان غنی کو شہادت نصیب ہوئی ، قرآن پاک کے اوراق شہید ہوئے۔
کتاب مقدس خلیفہ سوم اور انکی اہلیہ کے لہو سے سرخ ہوگئی، اور انکی اہلیہ حضرت نائلہ کی انگلیا ں کاٹ کر رکھ دی گئیں۔تیسرا دھرنا کربلا کی بے آب و گیاہ سر زمین پر خاندان نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معصوم ، نہتے ، اور بے گناہ لوگوں کے خلاف دیا گیا جو واپس مدینے جانا چاہتے تھے ۔ فاسق و فاجر حکمران کے حامیوں نے اگر وہ دھرنا نہ دیا ہوتا تو امام ِ عالی مقام اپنے اہل خانہ سمیت بخیر وخوبی واپس ہو جاتے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسیاں بے پردہ ہو کر پابند ِ زنجیر نہ کی جاتیں انکے سروں سے چادریں نہ اتاری جاتیں معصوم بچوں کے چہروں پر تمانچے نہ مارے جاتے ، معصوم علی اصغر کے حلق میں تیر پیوست نہ کیا جاتا، یہ ہے دھرنوں کی تاریخ جو اسلام ہمیں بتاتا ہے۔ فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے۔
منجانب : قائد اللہ اکبر تحریک۔ ڈاکٹر میاں احسان باری۔