جب میں نے شعوری طور پر آنکھ کھولی یہ لفظ دھرنا بچپن سے ہی میری سماعتوں سے ٹکراتا چلا آ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو میری سماعت کی میموری میں محفوظ ہو گیا ہے۔
جینا ہو گا مرنا ہو گا، دھرنا ہو گا دھرنا ہو گا
اس لفظ کی سب سے زیادہ مقبولیت جماعتِ اسلامی کے سابق امیر زیرک سیاستدان قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں ملی۔دھرنا پوری دنیا میں دیا جاتا ہے جو ہر سیاسی اتھلیٹ کا ہر دلعزیز کھیل رہا ہے۔کرپشن کے خلاف دھرنا ،ریاستی جبر کے خلاف دھرنا ،دھاندلی کے خلاف دھرنا ،ان دھرنوں کی تاریخ بہت پرانی ہے برصغیر کا سب سے بڑا دھرنا جیلنا نوالہ باغ میں ہندوستانی عوام نے فرنگی گورنمنٹ کے خلاف دیا اس دھرنے کو انگریز نے گولیوں میں دھرلیا ۔اور مسلمانانِ ہند لاشوں کو دھرتے دھرتے دھیرے ہو گئے۔
جلیانوالہ باغ سے لے کر طاہرالقادری اور عمران خان کے اسلام آباد دھرنوں تک اس دھرتی نے ہزاروں دھرنے اپنے سینے پہ ہوتے دیکھے ہیںعمران خان اور طاہرالقادری کا دھرنا جسے انھوں نے دیگر سیاسی پارٹیوں کے اشتراک سے پروڈیوس کیا ہے دیکھیں کیا رنگ دکھا تا ہے حکومت نے بھی ان دھرنے والوں کو دھرنے کے لئے فوج کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔کی اگر یہ ریڈ زون کراس کریں تو انھیں فوری طور پر دھر لیا جائے مگر مادرِ وطن کے مایہ ناز سپوتوں نے حالات کو قابو میں رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی پرتشدد کاروائی نہ کی اور نہ ہونے دی۔
حا لات کو احسن طریقے سے کنٹرول کرنے میں پنجاب پولیس اور فوج کے علاوہ وزیرِ داخلہ کے اقدامات بھی قابلِ تحسین ہیں۔جنھوں نے بطریقِ احسن دونوں ریلیوں کو پارلیمنٹ ہاوس تک جانے دیا۔مگر حساس قسم کی بلڈنگز کو محفوظ رکھاکیونکہ ہماری جنگ عمران خان ،طاہر القادری اور شریف برادران کی جنگ ہے۔اس ٹرائیکا نے انا کا مسئلہ بنا یا ہوا ہے۔پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی ایک ہی سب سے بڑی مانگ ہے کہ شریف برادران مستعفی ہوں اور ادھر وہ بھی بضد کہ میں نہ مانوں جیسے مثل مشہور ہے کہ چکی کے دونوں پاٹ اوپر ہوں یا نیچے انہیں فرق نہیں پڑتاپستا دانہ ہی ہے۔ ان تینوں فریقوں نے چکی کے پاٹوں کا کردار سنبھالا ہوا ہے اور عوام دانہ بنی ہوئی ہے۔جیسے کہ سانحہ ماڈل ٹاون میں عوامی تحریک کے 14کارکنان شہید ہو گئے وہ حکومتی پاٹ کے نیچے پس گئے اور اگر کہیں پولیس کے جوان مارے گئے تو وہ تحریکی پاٹ تلے پس گئے۔ان دونوں پاٹوں کا بال بھی بانکا نہ ہوا۔اگر کارکن مارے جائیں تو وہ بھی مادرِ وطن کی اولاداور اگر پولیس کے جوان زندکی کی بازی ہار جائیںتو وہ بھی مادرِ وطن کی گود اجڑی۔ان صاحبانِ اقتدار اور دعوای دارانِ انقلاب و آزادی کا کیا بگڑا۔۔؟اتنے دنوں میں کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوئے کتنے کاروبار ٹھپ ہوئے۔کتنے طلباء اور طالبات بلا جواز چھٹیوں کی وجہ سے اسباقِ علم سے پیچھے رہے۔ان کو کیا ان کو تو بس زندہ باد مردہ باد ہائے ہائے اور تالیوں سے غرض ہے۔
اور ہاں بات ہو رہی تھی دھرنوں کی تاریخ کی تو میری نظر برطانوی پارلیمنٹ میں جا پہنچی جہا ایک دھرنا غزہ کی مظلوم عوام کی خاطر برطانوی وزیرِ مذہبی امور اور پاکستانی نزاد رکنِ پارلیمنٹ سعیدہ وارثی نے اپنے ضمیر کی عدالت میں حاضر ہو کر استعفیٰ کی شکل میں برطانوی پارلیمنٹ میں دھرنا دیا ہے۔اس جرات مندانہ فعل پر انھوں نے تماشائی بنے عالمِ اسلام کے راہنماوں کے ضمیر کو جھنجوڑا ہے جو صرف اپنی کرسی بچانے اور کرسی پانے کے چکر میں غزہ کے مظلوم عوام کو فراموش کرکے بیٹھ گئے ہیں۔اکیلی سعیدہ وارثی نے اپنے تئیں کفارہ ادا کرنے کی کوشش تو کی ہے نا۔ہو سکتا ہے عالمِ اسلام اس استعفیٰ دھرنے سے ہی کوئی سبق حاصل کر سکے۔جانے کیوں عالمِ اسلام مسلمانانِ غزہ کی نسل کشی دیکھ کر بھی خاموش رہا۔۔۔اور عالمِ کفر مسلمانوں کی لاشوں پر محوِ رقص رہا۔۔بچوں اور خواتین کی چیخ و پکار پر” دھرنا “تو کیا کسی مسلمان حکمران نے کان دھرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔اور امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنی من مانیاں کر رہا ہے۔اور ایک ادارہ جو امریکہ بہادر کا اپنا ادارہ ہے جسے اقوامِ عالم اقوامِ متحدہ کا نام دیتی ہے وہ بھی غزہ میں موت کے کھیل پر پرسرار طور پر خاموش رہا۔اور مظلوم فلسطینیوں کی فریاد پر کان دھرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔
Gaza
قارئین کرام میں تھوڑا جذباتی ہو گیا تھااور قلم کو سچ کی آگ پر دھرنے چل نکلا تھا۔ برِصغیر کی تاریخ میں ایک دلفریب ،دلپذیر اور دلنشین دھرنا منٹو پارک میں بابائے قوم کی قیادت میں 1940 کو اسلامیان ِہند نے دیا اس دھرنے کے عوض ربِ کائنات نے ہمیں اپنے وطن کی بنیاد رکھنے کی ہمت دی۔اور بابائے قوم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی جس کا ثمر 14اگست 1947کو اسلامیانِ ہند نے پا لیا۔
منٹو پارک میں قائدِاعظم کی تقریر انگریزی میں تھی کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا بابا جی آپ کو سمجھ آ رہی ہے تو وہ بابا جی گویا ہوئے “او نئیں پتر سمجھ تے نئیں آ ندی پئی پر میرا ایمان اے کی او جو کہہ ریا اے سچ کہہ ریا اے”۔کاش ہمیں بھی ایسے راہنما میسر ہوتے جن کا قول و عمل ایک سا ہوتا ۔جن کے کردار و افکار میں تضاد نہ ہوتا جو لفظوں کی جادو گری سے ہمیں نہ بہلاتے ۔اس مٹی کا کوئی سچ مچ کا بیٹا راہبرو راہنما کے طور پر ہمیں میسر ہوتا تو ہم آج دنیا کے سامنے تماشہ بنے کھڑے نہ ہوتے۔
یہ ہے میری زمیں یہ ہے میرا وطن لاشیں ملتیں ہیں جس میں بے گوروکفن کہیں مذہب تنا زعہ کہیں ہے زباں خودکش حملوں کا اٹھتا ہو یہ دھواں خون میں تر میری دھرتی کا دیکھو بدن ہے بھروسہ کسی کو نہ اب جان کا کتنا سستا ہوا خون انسان کا باپ ماں ہیں سلامت نہ بھا ئی بہن یہ ہے میری زمیں یہ ہے میرا وطن لاشیں ملتی ہیں جس میں بے گوروکفن
Pakistan
قائد اور اقبال کے تو تصور میں بھی ایسا پاکستان نہ تھا جو حلیہ آج کی نام نہاد لیڈر شپ نے کر دیا ہے۔دعا ہے کہ پروردگار ہمیں آج بھی ایسے لیڈر عطا کر جس کی زباں بھلے ہماری سمجھ میں نہ آئے مگر ان کے عزم میں سچائی جھلکتی ہو جو کرسی کی چھینا چھپٹی کو بالائے طاق رکھ کر ایک منتشر قوم کو ایک قوم میں ڈھال سکے۔جس میں سندھی بلوچی پتھان اور پنجابی کی سوچ کو پاوں دھرنا نصیب نہ ہو ۔ربِ کائنات ہمیں مذہبی ،لسانی،گروہی فسادات کو بالائے طاق دگرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
پیاس بخشی ہے تو پھر اجر بھی کھل کر دینا ابر مانگے میری دھرتی تو سمندر دینا