تحریر : طارق حسین بٹ شان پاکستان میں سب سے زیادہ تشویشناک صورتِ حال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ایسے افراد مرکزی قیادتوں پر برا جمان ہو گئے ہیں جو خود کرپشن اور قرضہ معافی کی علامت ہیں اور دوسری طرف ان کی ہوسِ زر اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ سیاست جب کاروبار بن جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔پیسے کی ایک ایسی دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہے۔انھیں اقتدار چائیے چاہے ملکی استحکام اور اس کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے۔اقتدار کی جنگ ہم نے ١٩٧١ بھی دیکھی تھی۔دو جماعتیں اقتدار کی دعویدار تھیں اور پھر اس کا نتیجہ وہ نکلا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔کسی نے یہ نہیں چاہا تھا کہ ہمارا مشرقی بازو ہم سے علیحدہ ہو جائے لیکن ایسا ہی ہوا کیونکہ اقتدار کی جنگ بڑے زوروں پر تھی اور کوئی بھی پسپا ہونے کے لئے تیار نہیں تھا۔اقتدار جب پہلی ترجیح بن جائے تو پھر ایسے ی ہی ہوا کرتا ہے۔
قومیں باہمی انتشار اور انارکی سے تباہ ہوتی ہیں۔ہمارا ازلی دشمن بھارت تو پہلے ہی اسی تاک میں ہے کہ ہم کوئی غلطی کریں تو وہ اس کا فائدہ اٹھا کر ہمیں ایک دفعہ پھر مزید ٹکرے ٹکرے کر دے ۔بھارتی سازشیں اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتیں جب تک پاکستان کا وجود باقی ہے لہذا ہمیں اس کی سازشواں سے چوکنا رہنا ہے۔ایک طرف افغانستان میں اس کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ ہے،ایران سے اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں اور یورپ سے اس کی رفاقتیں ہیں ۔امریکی سرپرستی تو کئی دہائیوں سے ہی بھارت کاطرہِ امتیاز بنا ہے۔امریکہ چین سے خا ئف ہے لہذا اسے کسی ایسے ملک کی ضرورت ہے جو چین کے خلاف خم ٹھونک کرکھڑا ہو جائے اور اسے پوری قوت سے للکارے ۔امریکہ کا یہ خواب تو پورا ہو رہا ہے کیونکہ بھارت چین کو بے چین کئے ہوئے ہے ۔ مریکہ کی پہلی ترجیح چین کو محدود کرنا ہے اور بھارت امریکی سر پرستی میں اس مشن پر پوری ڈھٹائی سے زور آزمائی کر رہا ہے۔بھارت کوچین سے ذاتی خطرہ بھی ہے کیونکہ تجارتی میدان میں چین بھارت کی منڈیاں چھینتا جا رہا ہے جس سے اس کے ہاں بے روزگاری کا عفریت پھن پھیلائے کھڑا ہے۔،۔
Pak-China Economic Corridor
ہمارے خلاف بھارتی سازشوں کی شدت میں حالیہ اضافہ پاک چین راہداری بنا ہوا ہے ۔اسے بے اثر کرنے کیلئے بھارت نے ایران کے ساتھ گٹھ جوڑھ کیا ہوا ہے ۔چاہ بہار کی بندر گاہ ہماری گوادر بندرگاہ کو نیچا دکھانے کیلئے بنائی گئی ہے۔بھارت کو بھی بخوبی علم ہے کہ چاہ بہار گوادر کا نعم البدل نہیں بن سکتی کیونکہ چاہ بہار اپنے محلِ وقوع اور گہرائی کی وجہ سے گوادر کامقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔اب چونکہ بھارت تجارتی میدان میں پاکستان کو نیچا نہیں دکھا سکتا لہذا اس نے افغانستان کے راستے پاکستان کے خلاف نیا محاذ کھولا ہوا ہے۔ اشرف غنی اس کا بغلی بچہ بنا ہوا ہے اور پاکستان میں عدمِ استحکام پھیلا رہا ہے۔پاکستان کے اندر ساری دھشت گردکار وائیوں کے ڈانڈے بھارت سے ملتے ہیں لیکن حیرن کن بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں بھارت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے ڈرتی ہیں۔
بھارت افغانستان میں اپنے اثرو رسوخ کی بدولت دھشت گردوں کی سر پرستی کر ہا ہے جس سے پاکستان میں انتشار اور بد امنی کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔کراچی بھارت کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ یہاں پر اس کے ایجنٹ چھپے ہوئے ہیں جو ہر قیمت پر اس کیلئے کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ عالمی بندگاہ ہونے کی وجہ سے کراچی کی اہمیت مسلمہ ہے اور وہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔کراچی میں عدمِ استحکام کے معنی پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کرنا اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچانا ہے۔٢١ اگست کو الطاف حسین کا پاکستان مردہ باد کا نعرہ کراچی میں آنے والے نئے طوفان کی خبر دے رہا ہے ۔لوگوںمیں عدمِ استحکام اور خوف کے بادل ایک دفعہ پھر منڈلانے لگے ہیں ۔ لوگ خود کو ڈر اور خوف کا اسیر سمجھ رہے ہیں ۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ داد رسی کیلئے کس کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں کیونکہ حکومت نے تو بے حسی کے انجکشن لے رکھے ہیں۔ پی پی پی میاں محمد نواز شریف کے خلاف ٢٧ دسمبر کو تحریک چلانے کی دھمکیاں دے رہی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ کراچی کا امن اسے لوٹا دیتی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بناتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ اقتدار کے کھیل میں دیوانی ہوئی جا رہی ہے جس سے عوام اس جماعت سے دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں۔پی پی پی کو کراچی جیسے سورش زدہ شہر کو امن کا مسکن بنانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنی چائیں تا کہ اس کی ساکھ میں اضافہ ہو سکے۔،۔
ایک وقت تھا کہ افغانستان ہمارا دوست تھا اور ہم نے اس کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو شکستِ فاش دی تھی ۔سویت یونین چونکہ امریکہ کا بھی دشمن تھا لہذا امریکہ نے اس جنگ میں ہمیں ڈالروں سے لاد دیا ۔ انہی ڈالروں نے ملک میں کرپشن کی بنیادیں رکھیں جس میں ہماری سیاسی اور غیر سیاسی قیادتیں مکمل طور پر دھنسی ہوئی ہیں۔ اگر افغانستان کی جنگ نہ ہوتی تو شائد ہمارا ملک اس طرح کرپشن کی لعنت کا شکار نہ ہوتا ۔ہم میں سے ہر شخص کرپشن کا رونا روتے نہیں تھکتا لیکن کیا کسی نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ ہم اتنے قلیل عرصے میں اس لعنت کا شکار کیوں ہو ئے ہیں؟سچ تو یہ ہے کہ جب قائدین لٹیرے بن جا ئیں تو پھر پوری قوم بھی لٹیرہ ازم کی شکار ہو جاتی ہے۔وہ لعنت جو کسی وقت چند افراد کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھی اب پوری قوم کو اپنی لپیٹ میںلئے ہوئے ہے۔اب تو اقتدار کا مطلب لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ سیاست1 اب کارو بار بن چکی ہے ۔اس میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور پھر اصل زر کے ساتھ بے تحاشہ منافع کمایا جاتا ہے۔پاکستان میں سیا ست سونے کی ایسی کان ہے جس کی چمک نے سیاستدانوں کی نگاہوں کو حیرہ کر رکھا ہے۔
Panama Leaks
سیانوں کا قول ہے کہ جب جوابدہی کا تصور اپنی موت آپ مر جائے تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔یہ کسی ایک جماعت کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ساری سیاسی جماعتیں اس لعنت میں مکمل ڈوبی ہوئی ہیں۔اخبارات میں شور شرابہ ہے کہ پاناما لیکس پر میاں محمد نواز شریف کا محاسبہ کیا جائے لیکن کیا الزام لگانے والوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ ان کے اپنے دامنوں پرکتنے دھبے ہیں؟عمران خان کے پاک صاف ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن ان کی اپنی جماعت میں جس طرح کالی بھیڑیں جمع ہو چکی ہیں لوگ ان سے بھی تحفظات کا شکار ہیں۔خیبر پختونخواہ حکومت کے کرپٹ اندازِ حکمرانی سے اخبارات کے صفحات بھڑے پڑے ہیں ۔تحریکِ انصاف کے اپنے ممبرانِ اسمبلی وزیرِ اعلی پرویز خٹک کے خلاف کھلے عام بیا نات دے رہے ہیں جس سے تحریکِ انصاف کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے لیکن پھر بھی پارسائی کا دعوی اپنی جگہ ہے ۔ سندھ حکومت کے کئی وزرا کرپشن کے الزامات میں روپوش ہیں۔پاکستان میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔جسے دیکھو وہی کرپشن کا بادشاہ ہے ۔ جو کوئی اقتدار میں آتا ہے اسی کا پاکستان کے صفِ اول کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے لگتا ہے۔امارت کا یہ تحفہ اقتدار کی دین ہوتا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت اقتدار کیلئے دیوانی بنی ہوئی ہے۔
پاناما لیکس پر تحریکِ انصاف کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں کیونکہ وہ سمجھ رہی ہے کہ میاں محمد نواز شریف سے حساب چکتا کرنے کا یہی موزوں وقت ہے ۔ تحریکِ انصا ف نے شریف فیملی کوناک آئوٹ کرنے کیلئے اپنی حریف جماعت پی پی پی کے ساتھ بھی مفاہمت کر لی ہے اور پی پی پی کے خلاف اپنے پرانے الزامات سے توبہ کر لی ہے۔اب پی ٹی آئی کی نظریں ٢٧ دسمبر پر جمی ہوئی ہیں کیونکہ پی پی پی اس دن مسلم لیگ (ن) حکو مت کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کرنے والی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پی پی پی سڑکوں پر آنے کیلئے بیتاب ہے یہ الگ بات کہ پنجاب میں احتجاج کیلئے اس کے پاس کارکن نہیں ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں جیالے نواز حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے جبکہ اس وقت پی پی پی پورے شباب پر تھی لیکن اب جبکہ پی پی پی کا پنجاب میں صفایا ہو چکا ہے اس کا میاں محمد نواز شریف کو للکارنا عجیب لگتا ہے ۔ کیا ان دونوں جماعتوں کی باہمی رفاقت اور ملاپ مسلم لیگ (ن)کی حکومت کو گرا پائیگا یا ایک دفعہ پھر شرمندگی ان کا مقدر بنے گی؟میری ذاتی رائے ہے کہ پی پی پی اور عمران خان ایک دفعہ پھر ناکام ہو ں گے کیونکہ مسلم لیگ(ن) کو بچھاڑنا ان کے بس میں نہیں ہے کیونک مسلم لیگ(ن) پنجاب میں انتہائی مضبوط اور مقبول ہے لہذا دامن پر لگے دھبے دھل نہیں پائیں گے کیونکہ یہاں کوئی پارسا نہیں ہے۔،۔