تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی تاریخ کا دامن ظلم و بربریت کے بے شمار المناک داغوں سے بھرا پڑا ہے روز اول سے ظلم و بربریت کے علمبردار وحشت اور درندگی کے سیاہ کارناموں سے تاریخ کا دامن بھرتے آئے ہیں لیکن چند ردن پیشتر پشاور شہر جس کا نام پشپ پور تھا یعنی پھولوں کا شہر۔ اس شہر کے پھولوں کو جس درندگی اور وحشت سے مسلا گیا انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک ایسا واقعہ جس نے اہل وطن بلکہ پوری دنیا کو ہلا بلکہ اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے۔
پورے ملک میں سکوت مرگ طاری ہے اور پوری دنیا سراپا احتجاج ہے 16دسمبر کی صبح جب سورج کی دستک سے پورے ملک کے ساتھ ساتھ پشاور میں بھی زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ بیدار ہوگئی اور لوگ گھروں سے نکل پڑے۔ روزانہ کی طرح 16دسمبر کی صبح مائوں نے مامتا کے جذبوں سے معمور ہو کر اپنے نونہالوں جگر گوشوں کو حصولِ تعلیم کے لیے روانہ کیا ہو گا ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اِسی شام کو یہ مائیں اپنے معصوم پھولوں کی لاشوں کے ٹکڑے وصول کریں گی ۔معصوم پھولوں جیسے نونہال اپنی کلاسوں میں اور اساتذہ کرام ایک نئی نسل کو اعلی تعلیم دینے میں مصروف تھے۔
پشاور کے ورسک روڈ پر واقع اِس سکول میں تقریبا 1600بچے زیرِ تعلیم تھے درس و تدریس کے لیے تقریبا110اساتذہ بھی موجود تھے معصوم بچے اور اساتذہ کسی بھی خطرے سے بے نیاز درس و تدریس میں مشغول تھے کہ6درندے سیکورٹی گارڈوں کی وردیوں میں ملبوس سکول کی عقبی دیوار پھلانگ کر سکول میں داخل ہوتے ہیں سب سے پہلے اِن ظالموں کو سکول کا مالی دیکھتا ہے تو اُس کے شور مچانے پر اُسی معصوم بے گناہ کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جا تا ہے ۔ظالموں نے اپنے جسموں پر خود کش جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں وہ اپنے ساتھ کئی دن کا راشن بھی لائے تھے اُن کا ارادہ بچوں کو یر غمال بنانے کا تھا پھر یہ وحشی درندے اپنے پہلے سے طے شدہ پلان کے تحت سکول کے مختلف کمروں میں گھس گئے اور اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیں ‘معصوم بچے جو پٹاخے کی آواز سن کر خوف سے ماں کی گود میں چھپ جاتے ہیں جن کے جسم پر ہلکی سی خراش پر ماں باپ بہن بھائیوں کی جان پر بن جاتی تھی اور ڈاکٹروںکی لائن لگ جاتی تھی ۔ جب دہشت گردوں نے اِن معصوم پھولوں پر گولیوں کی برسات کر دی تو معصوم بچے کرسیوں کے نیچے چھپ گئے ۔ لیکن وحشی درندے بچوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارتے رہے بھاگنے والے بچوں چن چن کر مار رہے تھے کلاس روم مقتل گاہ بن چکے تھے ایک کلاس روم میں بچوں کو جمع کیا اور دھماکے سے اُڑا دیا بچوں کو بے دردی سے مرتا دیکھ کر پرنسپل طاہرہ قاضی آگے بڑھیں اور اپنے شاگردوں کی زندگی کی بھیک مانگی ظالموں نے پرنسپل صاحبہ کی اِس جسارت کو گستاخی عظیم گردانتے ہوئے بچوں کے سامنے تیل چھڑک کر پرنسپل صاحبہ کو آگ لگاکر زندہ جلا دیا بچوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی پرنسپل کو زندہ جلتا ہوا دیکھیں ۔بچوں اور اساتذہ کے چہروں پر خوف و دہشت کے سائے لرزاں تھے وحشی درندے انسانی حدود سے باہر نکل کر درندگی ، سفاکی اور ظلم و بربریت کے وہ دل خراش مظاہرے کر رہے تھے کہ اُن کے آگے درندوں کی خون آسنامی بھی ہیچ تھی۔
ظلم اور درندگی کے شعلوں سے پورا سکول جل رہا تھا ۔ ضمیر کی پستیوں میں رینگنے والے درندوں کے ہاتھوں میں مہلک جدید آتشیں ہتھیار تھے جن کو وہ اندھا دھند استعمال کر رہے تھے ظلم و بربریت کی داستان کے جو باب ادھورے رہ گئے تھے وہ آج یہ وحشی درندے مکمل کر رہے تھے ۔ گستاخی اور بے ادبی کے نئے نئے دل خراش حربے آزما رہے تھے ۔ یہ ایسا درد ناک منظر تھا کہ ظلم و بربریت کے بانی بھی لرز اُٹھے ۔ یہ ایسا دہشت ناک منظر تھا کہ جس کہ اثر سے تمام بچوں اور ٹیچروں کی قوتِ گویائی سلب ہو کر رہ گئی تھی ۔معصوم بچوں کو مارنے کے بعد بھی درندوں کے مشتعل جذبات سرد ہونے کی بجائے اور مشتعل ہوتے جارہے تھے۔ سکول کے درو دیوار پر ہیبت طاری تھی موت کی برسات ہو رہی تھی درندوں کے ترکش ستم میں جتنے بھی ہتھیار تھے وہ بچوں اور اساتذہ کے سینوں میں اُتار رہے تھے درندگی اور ظلم کے ایسے اذیت ناک مظاہرے کئے گئے کہ انسانیت حشر تک اُن آدم زادوں سے شرمسار رہے گی ۔ظالم درندے اپنے گناہوں کی ایسی فصیل بو رہے تھے جو حشر میں اُن سے کاٹی نہیں جائے گی ۔خدا کی قسم زمین آسماں اُن کے ظلم سے بھر گئے ہیں۔وحشی درندے اپنی آخرت خراب کر رہے تھے وہ معصوم بچے جو کسی زخمی پرندے کو گھر لے جا کر اس کی مرہم پٹی کر تے تھے وہ معصوم بچے جو اپنے پالتو جانور وں کے زخمی ہونے یا بیمار ہونے پر آسمان سر پر اُٹھا لیتے تھے آج اُن پر اور اُن کے ساتھیوں پر اندھا دھند گولیاں بر سائی جا رہی تھیں ۔ جب یہ معصوم گولیوں کی بوچھاڑ سے گھائل ہو کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے جسموں کو ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا دیکھ کر یہ ضرور سوچتے ہونگے کہ ہم پر کبھی ہمارے ماں باپ بہن بھائیوں چچا اور ماموں نے ہاتھ نہیں اُٹھایا تو یہ کون لوگ ہیں جن کے چہرے پر لمبی لمبی داڑھیاں ہیں اور عربی بولتے ہوئے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ہمیں گولیوںسے بھون رہے ہیں سکول پر موت کا رقص جاری تھا۔
Peshawar Terrorist Attack
محترم قارئین گزشتہ کئی سالوں سے وطن عزیز میں دہشت گردی جاری ہے سینکڑوں خود کش دھماکے ہو چکے ہیں تقریباً 60ہزار انسان دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں مگر ظلم اور بربریت 16دسمبر کو پشاور کے آرمی سکول میں دیکھی گئی یہ تو انتہا ہو گئی کون ظالم ایسا ہو سکتا ہے جو معصوم بھاگتے ہوئے بچوں کو چن چن کر مارے ایک بچے کو کئی گولیاں ماریں گئیں بچے گولیاں کھا کر گرتے جارہے تھے جو اِن گرے ہوئے بچوں میں حرکت کرتا اس کو گولیاں مار کر ٹھنڈا کر دیا جاتا ۔مرنے والے بچوں میں کتنے قرآن پاک کے حافظ تھے کتنے پانچ وقت کے نمازی تھے مرنے والے معصوم شہیدوں کو یہ سوچنے کاموقع بھی نہیں دیا کہ اُن کا قصور کیا ہے کیوں ان کو بے رحمی سے مارا جا رہا ہے ۔معصوم بچوں کے لباسوں پر نیلی سیاہی کی جگہ سرخ خون کی سیاہی ڈال دی ۔تصور کریں اُن ماں باپ کا جن کے بچے اِس سکول میں پڑھتے تھے جس نے بھی سُنا وہ ننگے پائوں ننگے سر گھر سے بھاگ اُٹھا پاک فوج کے نوجوان مسیحا بن کر جلدی پہنچ گئے دوران اپریشن ماں باپ عزیز اقارب دکھ ، تکلیف اور کرب کے جس پل صراط سے گزر رہے ہونگے یہ اہل دل ہی جانتے ہیں سڑکوں پر ننگے سر ننگے پائوں چیختی چلاتی آہ پکار مدد مدد کرتی آسماں کی طرف دعائیہ کلمات کے ساتھ دوڑتیں ہوئی مائیں سائرن بجاتی ہوئی ایمبولینس کا اژدھام قیامت کا منظر تھا ۔پوری قوم غم و اندوھ اور شدید صدمے اور سکتے کے عالم میں رب ذوالجلال کے حضور دعائیں اور فریاد کرتے رہی ۔ جس نے بھی یہ دلخراش خبر سنی تو اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے دیوانوں کی طرح سڑکوں پر دوڑ رہے تھے کہ کسی طرح بچوں کے حصے کی گولیاں اپنے سینوں پر کھا کر معصوم نونہالوں کو بچا لیں ۔ جن بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا جب اُن بچوں کی مائوں کو اُن کی مردہ لاشیں ملی تو قیامت سے پہلے قیامت آگئی ۔۔ ساری کائنات اِن معصوموں کے جانے سے تہی دست ہو گئی تھی۔
اپنے بچوں کو لاشوں پر رونے والی مائوں کے بین سن کر کلیجہ پھٹ جاتا ہے سانسیں رک جاتی ہیں تو جن کا بچہ لا ش میں تبدیل ہو گیا اُس ماں کے کلیجے کا کیا حال ہو گا ۔133بچوں کی مائوں کے دل قبرستان بن گئے اُن مائوں کی باقی زندگی دوزخ میں تبدیل ہو گئی ہے ایک ایسا دکھ اور کرب جن سے آخری سانسوں تک وہ نہیں نکل پائیں گی جنہوں نے صبح اپنے جگر گوشوں کو تیار کر کے سکول بھیجا جن کی شام سوگوار ہو گئی جن کے آنگن میں پھولوں کے جنازے پڑے ہوں جن کے پھولوں کو بری طرح مسل دیا گیا ہو مائوں کی باقی زندگی غم میں ڈوب گئی ۔بد قسمت سکول کے درودیوار ، کلاس رومز ، کرسیاں ، بستے ، کتابیں ، کاپیاں ، پنسلیں ، کینٹین میں سموسے اور برگر ابھی تک اُن کا انتظار کر رہے تھے ظلم و بربریت کا ایسا دلخراش واقعہ جو تاریخ عالم کے سینے ہر نقش ہو گیا جو اپنے ظلم درندگی اور وحشت کی وجہ سے تاریخ عالم کے سینے پر نقش ہو گیا جو اپنے ظلم درندگی اور وحشت کی وجہ سے تاریخ ایک بد نما داغ بن گیا ہے اِس جانگداز سانحے کی خبر جس کو بھی ملی وہ بہت رویا ۔ ہر شے اپنے محور سے ہٹ گئی اور کاروبار حیات معطل ہو گیا پورے ملک کے منہ سے آہوں کا سمندر اُبل پڑا وحشی درندوں نے ظلم و بربریت کا آخری باب اِس طرح رقم کیا کہ اِس کی تکلیف صدیوں تک محسوس ہو گی تاریخ کے اوراق میں یہ درندگی اذیت اور المناک عمل کے طور پر قیامت تک محفوظ رہے گی ۔ چشم آسمان نے تاریخ کے ہولناک ترین مناظر دیکھے جب سے یہ المناک حادثہ ہوا ہے دھرتی ماں مسلسل رو رہی ہے اور آسماں بھی اشکبار ہے ۔ کسی حساس دل نے کہا تھا۔
پھول دیکھے تھے جنازوں پر ہمیشہ شوکت کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے بقول سید عارف۔ جس کو بارہ برس گود میں رکھاجائے کتنا مشکل ہے اُسے گور کے اندر رکھنا
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی info@noorekhuda.org