غلام

Slave

Slave

14 سو سال قبل انسانوں کو غلام بنا کر مالدار رئیس بادشاہ اور سردار اپنے محلوں، درباروں اور گھروں میںرکھا کرتے تھے، جس طرح آجکل رمضان بازاروں میں پھل ،سبزیاں، انڈے، مشروبات، آٹا، کپڑے ودیگر مصنوعات کی فروخت ہوتی ہے، اسی طرح انسانوں کوبھی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا تھا۔ اور جو ایک دفعہ غلام بن گیا تو پھر اسکی ساری نسلیں غلامی کی زندگی سے لطف اندوز ہوتی۔ مگر ہمارے آقا ۖ نے جب اسلام کی تبلیغ شروع کی تو غلامی کو غیر شرعی واسلام کے قوانین کے خلاف قرار دیکر اس پر پابندی عائد کردی۔

اس دن کے بعد سے مسلمانوں نے غلام رکھنا بند کر دیئے کیونکہ اسلام کی رو سے اﷲ نے تمام مسلمانوں کو آزاد پیدا کیا ہے اور خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر آقاۖ نے فرمایا تمام مسلمان برابر ہے اور کسی فرد کو کسی دوسرے فرد پر فوقیت حاصل نہیں۔ قیام پاکستان سے قبل مسلمان انگریزوں کے غلام تصور کیے جاتے تھے اور برصغیر کا باشندہ اپنے ملک میں انگریز کو حکم جاری نہیں کرسکتا تھا۔ جس کی بدولت 100 سال تک برصغیر کی آبادی انگریزوں کی غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ مگر برصغیر کے مسلمانوں کو ڈر تھا کہ وہ کہیں انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد ہندوئوں کی غلامی کا شکار نہ ہوجائے۔

لہذا 14 اگست 1947 کو مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح و دیگر لیڈران کی قیادت میں ایک الگ اسلامی ملک بنایا۔ جہاں پر اسلامی اصولوں و قوانین کا اطلاق کرنا مقصود تھا۔ مگر مسلمانوں کو کہان معلوم تھا کہ ہم انگریزوںو ہندوئوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سرداروں ۔۔وڈیروں ۔۔چوہدریوں۔۔ زمینداروں اور سرمایہ دار طبقہ کے غلام بن جائے گے؟ زمینداروں نے اپنے لومڑی جیسے تیز دماغ کا استعمال کرتے ہوئے مزدوروں کوسود پر ایڈوانس رقم دی، جو انہوں نے بچوں کی شادی بیاہ، ادوایات، تعلیم یا گھر کی تعمیر میں استعمال کر دی، جودیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں سے لاکھوں میں تبدیل ہوگئی۔

اورایک نسل سے دوسری، دوسری سے تیسری نسل زمینداروں کی غلام بن گئی۔جی ہاں غلام، کیونکہ علاقہ کی پولیس، انتظامیہ،سول سوسائٹی اور عدلیہ میں زمیندارکا اثرورسوخ تھا، اور اگر کوئی مزدور اپنے آقا کے احکامات کے خلاف چلتا تو مقامی پولیس اس کی مہمان نوازی کے فرائض ادا کرتے ہوئے، اسے نشان عبرت بنا دیتے۔ آہستہ آہستہ پاکستان سے زمینداروں کی حکومت صوبہ پنجاب سے ختم ہوگئی اور ان کی جگہ بائو (سرمایہ دار) آگئے، جو10 سال سے لیکر 100 سال کے انسان سے اپنی فیکٹری، کارخانہ میں کام کرواتا۔

Landowner

Landowner

سرمایہ دار نے بھی زمیندار کی پیروی کرتے ہوئے ایڈوانس رقم دینا شروع کردی۔ پھر فیکٹری کی حدود کے اندر بائو صاحب ایک آمر بن گئے۔ کسی بھی ملازم کو تھپڑ مارنا، مرغا بنانا، گالیاں دینا حسب معمول بن گیا۔ قارئین ہم تمام پاکستانیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ شان محل نما رہائش گاہ تعمیر کرئے۔ سوائے ورکنگ ایماندار صحافیوں کے تمام انسان کبھی نہ کبھی اینٹوں کی مدد سے مکان تعمیر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، مگران کو کیا پتہ ہو، جن اینٹوں سے مکان تعمیر کیا جارہا ہے اس کی تیاری میں 5سال کے بچے سے لیکربوڑھے مرد و عورت کی خدمات شامل ہوتی ہیں۔

بھتہ پر پاکستان کی غیرترقی یافتہ۔۔ناخواندہ۔۔بے شعور غریب عوام کام کرتی ہے۔ جس میں سے بیشتر تو اپنی روزانہ کی آمدن سے اپنی نشہ کی لعت ہی پوری کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، نشہ کا شکاری اور دنیا سے لاپرواہ یہ طبقہ کب اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرتا ہے؟ اگر فکر کرتا ہوتا تو اپنی پوری فیملی کو بھتہ مالکان کا غلام چند سو میں نہ بناتا۔ سپارک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا8سے10 ہزار بھتے ہیں، جن پر 1.5 ملین سے زیادہ لوگ مزدوری کرتے ہیں، تقریبا 5000 ہزار بھتے صرف صوبہ پنجاب میں ہیں۔ ان میں سے صرف ضلع سیالکوٹ (شہراقبال) میں 169 بھتے ہیں جن میں سے صرف 129 ہی لیبر ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔

سپارک کے نمائندہ محمد ارسلان خان کے مطابق ڈی پی او سیالکوٹ محمد گوہر نفیس نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ضلع سیالکوٹ جو شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا جائے پیدائش بھی ہے، میں گذشتہ ہفتے247 بھتہ مالکان کے خلاف بانڈ ڈلیبر سسٹم ایکٹ 1992 کے تحت 379 کیس رجسٹرڈ کیے۔ ملزم بھتہ خشت پر اپنے مزدوروں کو کم اجرت دے کر زیادہ مزدوری لیتے اور ان سے جبری مشقت لیتے۔ قارئین اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر عدلیہ و NGO بھتہ خشت کے ملازمین کے خلاف آواز بلندنہ کرتے تو کیا ان کو کبھی آزادی نصیب ہو سکتی تھی؟

کب پاکستان کی پولیس پاکستان کے قانون کی پاسداری کرتے ہوئے مظلوموں کو انصاف ڈلوائے گی؟ کب تک پاکستان میں پولیس جاہلی پرچے دیتی رہے گئی؟ عوامی رائے کے مطابق اگر ایک SHO سچ و جھوٹ کا فرق معلوم نہیں کرسکتا تو پھر تعلیم و دیگر ٹیسٹ کا ڈرامہ کیوں کیا جاتا؟ یہ کام تو ایک بھتہ پر کام کرنے والا نشی بھی کرسکتا ہے؟ آخر کب تک پاکستان میں قانون کے ساتھ مزاخ کیا جاتا رہے گا؟ یہ وہ سوالات ہے جن کا جواب پاکستان کی مظلوم عوام اعلٰی احکام سے کرتے نظر آتے ہیں۔

Zeeshan Ansari

Zeeshan Ansari

تحریر : ذیشان انصاری
موبائل نمبر: 0313-6462677