تحریر: سید صدا حسین کاظمی ہم نے غلامی کی زنجیریں تو 47ئ میں ہی توڑ دیں تھیں مگر ذہنی طور پر ہم آج بھی اپنے آپ کو غلام ہی تصور کرتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ہمیں گلہ ہے الیکٹرانک میڈیا سے کہ انہوں نے پاکستان اور اسلام کیلئے خدمات سرانجام دینے والی شخصیات کو یکسر فراموش کردیا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ ہماری دھرتی بانجھ ہے جس نے زندگی کے کسی شعبہ میں کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا ہے۔اس دھرتی پر پیدا ہونے والوں کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ کوئی کردار ایسے کرداروں کو پیش کیا جاتا ہے کہ جنکا ہماری تہذیب و تمدن اور اقدار و نظریات سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا ۔الیکٹرانک میڈیا ایسی شخصیات کا ذکر یاتو کرتا ہی نہیں اگرکرتا بھی ہے تو سرسری جو انکی شایان شان نہیں ہوتا۔
”بونوں کو قدآدم دے دیتے ہو اور قد آدم کو بونا بنادیتے ہو ۔۔۔۔جو چاہو حسن کرشمہ ساز کرے”
عبدالستارایدھی کا ذکر ہویا پھرمدھ موھن لال کا ذکر ہوتا ہے تو کہیں تان سین کا تو کہیں مدر ٹریسیا تو کہیں لیڈی ڈیانا کو ہم سے بچھڑے 16برس بیت چکے ہیں۔پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ پر پلنے والی پوش خواتین جو پاکستانی خواتین کو لبرل کے نام پر برہنہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ہمارے لئے رول ماڈل ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ جنکا پورے عالم اسلام کی خواتین پر احسان ہے اور باوقار زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھایا اور حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ ۖ نے وفات پر پردے کا اہتمام کرکے پوری امت مسلمہ کی خواتین کو باپردہ اور باحیا ء بنا دیا لیکن میڈیا نے جو ”روڈ پر تھیں ”انہیںماڈل بنادیا اور ایسی گفتگو کی جاتی ہے کہ ایک سچا مسلمان اور پاکستانی اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر بھی نہیں سن سکتا۔
ہمیں بتایا جائے کہ پاکستان کیسے آزاد ہوا ،اسکی آزادی کیلئے کس نے کیا قربانی دی یقیناً آزادی بہت بڑی نعمت ہے کونسی شخصیات نے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔اب تو ماشاء اللہ بانیان پاکستان کی برسی کا بھی نوجوان نسل کو علم نہیں۔ نواب عبدالرب نشتر ،لیاقت علی خان،مادر ملت فاطمہ جناح کون ہیں ہماری موجودہ نسل کو ان شخصیات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ یہ کب پیدا ہوئیں اور انکی وفات کب ہوئی ۔شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ،مولانا ظفر احمد عثمانی نے پاکستان بنانے کیلئے قائد اعظم اور مسلمانوں کو آمادہ کیااور قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا پر چم لہرانے کیلئے انکے ہاتھ میں تھمایا تھا ۔قوم کے بچے پوچھتے ہیں کہ انکی آرام گاہ کہاں ہے ؟؟ انکی آخری آرام گاہ پر آج تک کس نے حاضری دیکر فاتحہ خوانی کی ہے ؟؟؟؟
نظریاتی طور پر محمد بن قاسم ،محمود غزنوی ،ٹیپو سلطان توسیع پسندانہ بناکر پیش کئے جاتے ہیں۔جس مرد آہن سے ظلم حکمران لرزہ براندام رہتے تھے جس کے قوانین کو یورپ کے بیشتر ممالک نے ”گریٹ عمر لاز”کے نام سے اپنے ممالک میں ان قوانین کا نفاذ کیا ہے یہ انکی شخصیت کو غیر مسلموں کا اعزاز ہے کہ انکے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کو اپنی نجات اور کامیابی سمجھا جبکہ ہمارے حکمران اور میڈیا انکا نام لینے میں عار محسوس کرتے ہیں۔
خدارا قوم پر رحم کھائیے اور اپنا قبلہ درست کیجئے ۔ ٹی وی شو(ٹاک شوز)میں ایسی گفتگو نہ کی جائے جس سے انتشار پھیلے یا نظریہ پاکستان کی حدود میں رہ کر وہ چیز دکھائی جائیں جو اسلام اور نظریہ پاکستان کے مطابق ہوں۔ایسی اخلاق باختہ تصاویر نہ دکھائیں جس سے ہماری نوجوان نسل کی نشو ونما کی کھیتی بھسم ہوکر رہ جائے۔جن کرداروں کو آپ ہمارے لئے مشعل راہ بنانا چاہتے ہیں اس معاشرے نے صنف نازک سے نسوانیت ہی چھین لی ہے اور اسی معاشرے نے صنف نازک کو ایک شو پیس بناکر رکھ دیا ہے ۔بچوں اور بچیوں کامعصومانہ بچپن چھین لیا ہے۔