سات عشرے گزر جانے کے باوجود بھی ہماری سیاست اسی جگہ کھڑی ہے جہاں پر کئی عشرے پہلے کھڑی تھی۔پارلیمنٹ کے اندر وہی نعرے ایک بار پھر سنائی دئے جو اس سے قبل بھی سنائی دیتے تھے ۔دھینگا مشتی اور الزام تراشی کا وہی انداز تھا جس کے مناظر ہم نے اس سے پہلے بھی کئی بار دیکھے ہیں۔گو بابا گو سے شروع ہونے والا کورس تھمنے کا نام نہیں لے رہا کیونکہ ہر انتخاب میں قوم کو کسی ایسی نئی واردات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس کی برداشت سے باہر ہوتی ہے۔عین وقت پر سسٹم کے فیل ہو جانے کے بعد کسی تبصرے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایک بے چینی ہے جو ہر سو پھیلی ہوئی ہے ۔چہرے بدل گئے ہیں لیکن کورس اور بیانیہ وہی ہے ۔جو الیکشن میں شکست سے دوچار ہوجاتا ہے وہ دھاندلی والے کورس کو. اپنا لیتا ہے جو اس سے قبل والی اپوزیشن نے گایا ہو تا ہے۔کل کو مسلم لیگ(ن) کی حکومت تھی تو مسلم لیگ(ن) کی جیت دھاندلی کا نتیجہ تھی۔
آج پی ٹی آئی فاتح ہے تو مسلم لیگ (ن) دھاندلی کا شور مچائے ہو ئے ہے اور پی ٹی آئی کی جیت کو دھاندلی کا شاخسانہ ثابت کرنے کیلئے نعرے بلند کر رہی ہے۔اس کی نظر میں اس کا مینڈیٹ اس سے زبردستی چھینا گیا ہے ۔ ١٧ اگست کو وزیرِ اعظم کے انتخاب میں جس طرح سے شور شرابا ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔انتخابی معرکے میں پی ٹی آئی کو ١٧٦ ووٹ پڑے جبکہ مسلم لیگ (ن) کو صرف ٩٦ ووٹ پڑے ۔پی پی پی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔میاں شہباز شریف نے کچھ عرصہ پہلے آصف علی زرداری کے خلاف جس طرح کی گھٹیا اور غلیظ زبان استعمال کی تھی یہ فیصلہ اسی کے تناظر میںہوا ہے۔یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے تا کہ ہمارے قائدین سلجھا ہوا انداز اپنا سکیں اور اپنے لہجے اور الفاظ کا مناسب چنائو کر سکیں ۔وہ شترِ بے مہار بن کر جس طرح دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں اس سے قوم کا اجتماعی مزاج متاثر ہو گیا ہے۔ کچھ تجزیہ کار اس بائیکاٹ کی طنابیں کہیں اور ملا رہے ہیں اور کچھ اسے خفیہ اشاروں کی کارستانی بھی کہہ رہے ہیں۔بہر حال نئے سپیکر اسد قیصر کا شائد یہ پہلا تجربہ تھا لہذا انھیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس صورتِ حال سے کیسے نبر دآزما ہوں ۔جیسے ہی منتخب وزیرِ اعظم عمران خان کو خطاب کی دعوت دی گئی ہنگامہ برپا ہوگیا جس کاکوئی سر پیر نہیں تھا۔پارلیمنٹ مچھلی بازار بنی ہوئی تھی اور نعروں کی گونج سے پارلیمنٹ کے درو دیوار ہل رہے تھے ۔ ٤٠ منٹ تک جاری رہنے والے ہنگامہ کے بعد سپیکر نے پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی کیا تو سب کی جان میں جان آئی کیونکہ اس کے علاوہ اس ہنگامہ کو فرو کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ ،۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی فتح کے بعد عوامی توقعات آسمان کو چھو رہی ہیں اور عمران خان کے پاس ایسا کوئی جادوئی چراغ نہیں جس کے کرشمہ سے وہ عوام کی لا محدود خواہشوں کو تعبیر بخش سکیں۔وہ خود ناتجربہ کار ہیں اور انھیں ملکی مسائل اور ان کی گہرائی کا کما حقہ ادراک نہیں ہے۔نعرے بکتے ہیں اور پی ٹی آئی کا کرپشن مکائو نعرہ بکا ہے لیکن اس کو عوامی امنگوں میں کیسے ڈھا لا جائے یہ ابھی طے ہونا باقی ہے ۔ پاکستانی معاشرے اور سوسائٹی کا مقابلہ مغربی معاشرے سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے ان قوانین کی مدد سے سدھارا جا سکتا ہے جس پر مغرب نے اپنے معاشرے کی بنیادیں رکھی ہیں۔ہمارا معاشرہ تضادات اور اونچ نیچ کا معاشرہ ہے جس میں ہر دولت مند اور صاحبِ حیثیت شخص کی عزت کی جاتی ہے چاہے وہ اخلاقی طور پربانجھ ہی کیوں نہ ہو جبکہ یورپ میں ایسا نہیں ہوتا۔جولائی ٢٠١٨ کے انتخابات اس سوچ کامکمل عکس ہیں جس میں اہلِ ہشم، اہلِ ثروت اور اہل زر لوگوں کو مڈل کلا س کارکنوں پر ترجیح دی گئی ہے۔وزارتِ عظمی کے حصول کی خاطر جن الیکٹیبلز کو ٹکٹ جاری کئے گئے وہ کوئی دودھوں دھلے ہوئے لوگ نہیں ہیں لیکن وہ پھر بھی صاحبِ عزت ٹھہرے ہیں کیونکہ ان کے پاس لال و زرو جواہر کی بہتات ہے اور ان کی تجوریاں نوٹوں سے بھری ہوئی ہیں۔الیکشن لڑنا اب روساء کا کام رہ گیاہے۔یہ دولت مندوں کا شغف ہے جس میں کسی غریب اور کمزور کا کہیں گزر نہیں ہے۔گویا کہ پاکستان کی اغلب آبادی کو دولت مندوں کا غلام بنا دیا ہے۔
ایک مخصوص طبقہ پارلیمنٹ کے ایوانوں کی زینت بنا دیا گیا اور ہمیں ان کی حاشیہ برداری پر لگا دیا گیا ہے۔ہم آزادی کی بجائے چند خاندانوں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں حالانکہ ہم نے ١٤ اگست ١٩٤٧ کو آزادی کا اعلان کیا تھا۔کیا یہی انتخابات کا مقصد ہے کہ پاکستانی عوام کو غیر محسوس انداز سے غلامی کی زنجیریں پہنا دی جائیں۔وہ زنجیریں جھنیں ہم نے ١٩٧٠ میں کاٹا تھا ایک بار پھر ہمیں انھیں میں جکڑ دیا گیا ہے اور اسے تبدیلی کا نام دے دیا گیاہے گویا کہ قفس کا نام گھر رکھ دیا گیا ۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ سارے طبقات کو پارلیمنٹ میںمنا سب نمائندگی دی جاتی،کسان بھی اس کا حصہ ہوتے،ہنر مند بھی اس کا حصہ ہوتے ، دانشور بھی اس کا حصہ ہوتے،قانون دان بھی پارلیمنٹ کا حسن دوبالا کرتے او ر اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین سے پارلیمنٹْ کی توقیر میں اضا فہ ہوتا لیکن یہاں پر توساری جماعتیں صرف الیکٹیبلز کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔لیکن عجیب اتفاق ہے کہ یہ الیکٹہبلز کسی اور کی مٹھی میں بند ہیں ۔وہ جسے چاہتے ہیں انھیں عطا کردیتے ہیں اور پھر یہ الیکٹیبلز بھی ایسے فرمان بردار ہیں کہ اپنے آقائوں کی بات کو ٹالتے نہیں ہیں۔وہ جس کے ہاتھ میں ان کی مہار تھماتے ہیں یہ اسی کے ہو جاتے ہیں ۔یہ الگ بات کہ ان کی وفا شعاری کا مرکزمہار تھمانے والے ہی ہوتے ہیں۔
الیکٹیبلز سب سے آنکھیں پھیر سکتے ہیں لیکن انھوں نے اپنے مربی سے کبھی بے وفائی نہیں کی کیونکہ وہ اس حشر کو جانتے ہیں جو بے وفائی کے بعد ان کا مقدر بن سکتا ہے لہذا وہ بے وفائی جیسی سوچ سے کوسوں دور رہتے ہیں ۔ اپنے مرکزی دھارے سے ان کی وفا میں کوئی شک نہیں ہو تا ۔وہ کئی دہائیوں سے یہی کھیل کھلتے چلے آ رہے ہیںنلیکن اپنے رویوں سے کبھی کسی جماعت کو یہ احساس نہیں ہو نے دیتے کہ وہ ان کے نہیں ہیں بلکہ ستم ظریفی کی انتہا تو یہی ہے کہ ہر جماعت ان الیکٹیبلز کو اپنا سمجھ کر سینے سے لگا لیتی ہے کیونکہ اس میں اس کی جیت کا راز پنہاں ہو تا ہے۔یہ کسی ایک جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ہمارا پوارا معا شرہ اس کی لپیٹ میں ہے۔عمران خان کو جو الیکٹیبلز دئے گئے تھے وہ محض اسی لئے دئے گئے تھے کہ ان کی کامیابی مقصود تھی ۔مئی ٢٠١٣ میں یہی الیکٹیبلز میاں محمد نواز شرف کو ہدیہ کئے گئے تھے کیونکہ وہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر تھے۔اب محبت کی وہ نظر ہٹ گئی ہے تو ایک نئی محبوبہ اسی سنگھاسن پر بٹھا دی گئی ہے۔یہ محبوبہ بدل جاتی ہے لیکن اس کے عاشق نہیں بدلتے۔اقتدار کی دنیا میںویسے بھی محبوبہ بوڑھی ہو جائے یا ضعیف ہو جائے تو اسے بدل لینا ضروری قرار پاتا ہے جبکہ حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ہو تا ۔امجد اسلام امجد نے تو اپنی نظم (مجھے تم سے محبت ہے) میں اکھڑتی سانسوں میں بھی محبت کے عہدو پیمان کی قسم کھائی تھی۔وہ روح کی محبت تھی یہ اقتدار کی محبت ہے جن کی دنیائیں بالکل الگ ہیں۔
ہم جذباتی لوگ دونوں دنیا ئوں کو حقیقی دنیا سمجھ کر امنگوں اور آ رزوئوں کی علیحدہ دنیا بسا لیتے ہیں لیکن جب سپنے چکنا چور ہوتے ہیں تو ان کی تیز اور نوکیلی کرچیوں سے خود کو لہو لہان کر لیتے ہیں۔لہو بہتا ہے تو سارا جنون بھی بہہ جاتا ہے،سارا جوش بھی سرد ہو جاتا ہے،سارا جذبہ بھی ماند پر جاتا ہے اور سارا عشق بھی ہوا ہو جاتا ہے کیونکہ ہر ملمح سازی کے بعد ایسا ہی ہوا کرتا ہے ۔اتنے دھوکے کھائے ہیں،اتنے فریب سہے ہیں اور اتنی عہد شکنی کا سامنا کیا ہے کہ قائدین کے خلوصِ نیت کا اعتبار ہی اٹھ گیا ہے ۔ جوقائددن دھاڑے اپنے قول سے پھر جائے اس کے وعدوں پر کون اعتبار کرے گا؟وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے یہ ہمارے ہی کسی قائد کا فرمان تھا جبکہ وعدہ ایفائی انسان کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔نئے وزیرِ اعظم عمران خان کیا وعدہ ایفائی کی نئی تاریخ رقم کریں گے ؟ یا ہمار احال اس قوم جیسا ہو گا جس کی امیدوں کی کھیتیاں بہار دیکھنے سے پہلے ہی اجڑجاتی ہیں ؟بے شمار تحفظات کے باوجود میری دلی دعائیں عمران خان کے ساتھ ہیں تا کہ وہ اس تبدیلی کو حقیقت کا روپ عطا کر سکیں جس کا وعدہ انھوں نے اپنی قوم سے کر رکھا ہے۔،۔