اقوام متحدہ کی فہرست میں جارحیت کر کے عوام کو محکوم بنانے کی شکل کو غلامی شمار نہیں کیا جاتا۔ حالاں کہ کسی بھی طاقت ور ملک کو حق حاصل نہیں کہ وہ جارحیت کر کے کسی علاقے پر قبضہ کر لے اور عوام کو خود ساختہ قوانین کا تابع بنائے، حکم عدولی پر جیلوں میں ڈالے یا سخت سزائیں دے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام جارح،غاصب حکمرانوں سے تنگ آجاتے ہیں اورپھر گلو خلاصی کی کوشش کرتے ہیں، جسے جارحیت پسند بغاوت سے تعبیر کرتا ہے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ جارح اپنا تسلط برقرار رکھنے میں ناکام ہی رہتا ہے، گو کہ اسے وقتی طور پر کامیابیاں تو ملتی ہیں لیکن بالآخر اُسے ناکام و نامراد جانا ہی پڑتا ہے۔دور جدید میں اسے افغانستان، عراق، مقبوضہ کشمیر،فلسطین کی مثالوں سے بخوبی سمجھا ج اسکتا ہے۔
انسانوں کو غلام بنانے یا جسے دوسروں لفظوں میں کہا جائے کہ انسان پر حکمرانی کا دوسرا طریقہ مذہب ہے، جہاں لوگوں کو مذہب کے نام پر قائل کر کے حق حکمرانی کا جواز پیدا کیا جاتا ہے اس طریقہ کار میں مذہبی پیشوائیت اپنے جواز حکمرانی کے لیے تشدد و سہانے خواب کا سہارا بھی لیتے ہیں، جس میں اپنے احکام منوانے کے لیے طاقت اور ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے خائف اور لالچ میں آ کر سخت گیر مذہبی پیشوائیت کے ہاتھوں مجبور کمزور عوام ان کے ہر حکم کو بجا لانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
زمانہ قدیم اور نشاۃ ثانیہ سے قبل یورپ بھی مذہبی پیشوائیت کے ہاتھوں غلام بنا ہوا تھا کہ قدامت پسندوں کو اپنے”گناہ“معاف کرانے کے لیے معاوضہ ادا کرنا پڑتا، جنت جانے کے پرمٹ کے لیے اسے خود ساختہ فیس دینا پڑتی، دور جاہلیت کی تمام خامیاں اُن میں بدرجہ اتم پائی جاتیں تھیں۔ صلیبی جنگوں کے بعد فلسطین، جموں و کشمیر،مصر،شام، عراق اور افغانستان سمیت کئی ممالک میں مذہب و مسلک کے نام پرطاقت ور قوت،کمزور گروہ کو اپنا ماتحت بنانے کے لئے تشدد آمیز کارروائیوں میں خون بہانے سے بھی تامل نہیں کرتے۔
انسانی غلام بنانے کا تیسرا طریقہ معاشی حکمرانی ہے۔اس میں بظاہر کسی کا جبر دکھائی نہیں دیتا لیکن استعماری قوتیں پوری کی پوری مملکت کو اپنی پالیسیاں مسلط کرکے غلام بنا دیتی ہیں۔ ان ہی پالیسیوں کی بنا پر ان سے ٹیکس یا سود قانونی شکل میں وصول کیا جاتا ہے اور اپنے تئیں سمجھاتے ہیں کہ اس رقم سے عوام کی حفاظت اور ترقی کے منصوبے بنا کر بہتری کی طرف چلا جائے گا،لیکن انہی کے لیڈربتدریج رزق کے بہتے سرچشموں پر قابض ہو کر عالمی غلامی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں بظاہر اس طریقے میں تشدد کا کوئی راستہ اختیار نہیں کیا جاتا لیکن معاشی غلام بنانے کے لیے مملکت کو اس قدر مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے کہ ایسے عوام کے تحفظ کے نام پر جنگی جنون میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے جن کا کام ایسے ممالک کو غلام بنانا ہے، جہاں قدرتی وسائل وافر ہوں اور اُسے یہ ڈر ہو کہ وہ ملک ترقی کی راہ پر چل کر عالمی تھانیداری کو کہیں چیلنج نہ کر دے۔یہ شاطر ادارے ایسی مملکتوں کو قرض کے چنگل میں پھنسا کر ورلڈ گیم کا حصہ بنا لیتے ہیں اور ان سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ Alexander Fraser Tyler سے منسوب یہ بیان اکثر ہمارے سامنے آتا ہے کہ ”ہر قوم چند مخصوص مراحل سے گزرتی ہے، پہلے غلامی سے مذہبی عقائد تک، پھر مذہبی عقائد سے عزم اور حوصلے تک، پھر عزم و حوصلے کے سہارے آزادی حاصل کرنے تک، پھر آزادی سے خوشحالی اور پھر خوشحالی سے خودغرضی تک، خود غرضی لاتعلقی کا باعث بنتی ہے اور جس سے قوم بے حس ہو جاتی ہے،بے حسی انحصار لاتی ہے اور انحصار دوبارہ غلامی تک پہنچا دیتا ہے۔“
غلامی کی کئی اقسام میں ہمیں انفرادی طور پر خود اپنے آپ کا موازنہ بھی کر لینا چاہیے کہ ہم غلامی کی کس قسم میں گرفتار ہیں۔ اصل لبِ لباب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کا محاسبہ کریں کہ ہم طاقت کے ہاتھوں غلام بنے ہیں یا اپنی معاشرتی طرز زندگی میں تبدیلی نہ آنے کے سبب معاشی غلام بن چکے ہیں۔ بہ حیثیت قوم تو ہم اپنے فیصلے اپنے لیڈروں کے ہاتھ میں سونپ دیتے ہیں جس پر ان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ہمیں کس قسم کی غلامی میں رکھنا پسند کرتے ہیں، گھر میں اپنے والدین کی حق تلفی ہو، یا شریک حیات کو جبری تابع بنا کر اسے ازدواجی غلام بنانا، یا پھر آجر ہو کر ملازم کو اُجرت پر رکھ کر غلام سمجھنا، درحقیقت ہماری سرشت میں غلامی داخل اسی لیے ہے، کیونکہ ہم نے نفس کو اپنی خواہشات کا غلام بنا رکھا ہے۔
نفس کی خواہشات کے آگے ہم جھک جاتے اور اگر ہمارا تعلق سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہے تو اپنی فکر میں تشدد کی آمیزش کر دیتے ہیں کیونکہ اخلاق و کردار کی تعمیر پر توجہ کم دی جاتی ہے، چند افراد کا ایسا مجموعہ گروہ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور بہ زور طاقت اقلیتی گروہ کو زیر نگیں کرنے کے لیے ہر سعی کرتے ہیں، گروہ کو اپنی طاقت کو موثر بنانے کے لیے مذہب، یا کسی بھی نظریے کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ جب تک کسی انسان کو جذباتی نہ کیا جائے اس سے من پسند خواہشات پوری نہیں کرائی جا سکتیں۔
گروہ کو ملکی اثر پذیری حاصل ہوتی ہے تو اس جیسے کئی گروہوں کو پاؤں تلے رکھنے کے لیے جاہ و حشمت کے ساتھ مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے جو اُنہیں وہ ادارے فراہم کرتے ہیں جن کا مقصد ہی غلام بنانا ہے اور انسان غلام بنتے بنتے، اپنی پوری قوم اور ملک کو بھی غلام بناتا چلا جاتا ہے۔ پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس قوم کو اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرنے میں عقل سے زیادہ جذبات کا استعمال کرنا پڑتا ہے، اپنے لیڈروں کے قول و فعل کے تضاد کو سنہری حیلہ سازیوں میں ڈھال کر اپنی نسل کو گروہی رکھنے پر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ غلامی کی اس سیاسی قسم کو بھی کسی میزان میں نہیں تولا جاتا کیونکہ جب جسموں کی قیمت سر عام لگنے لگیں تو ضمیر کے خریدار، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں کہ مصداق کوڑیوں کے مول ملتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں رہا کہ انسان کی غلامی خود اس کے ہاتھ میں ہے یا کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں میں، لیکن ہم اپنے گرد و نواح میں دیکھیں تو با آسانی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ عوام اپنے لیڈروں کے عاقبت نااندیش فیصلوں کی بنا پر غلامی کی زنجیر سے اس ہاتھی کی طرح آزاد نہیں ہو پاتے جو ساری عمر اپنے طاقت ور جسم کے ساتھ بندھی زنجیر کو اس لیے نہیں توڑ پاتا کیونکہ اس نے پختہ یقین کر لیا ہوتا ہے کہ وہ غلام بن چکا ہے۔ اگر طاقت ور ہاتھی ذرا سی ہمت دکھاتا تو باآسانی زنجیروں کو توڑ سکتا تھا، لیکن جب خوئے غلامی مقدر بنا لی جائے تو اس سے آزادی دلانے کے لیے عرش سے فرشتے نہیں آ سکتے۔ آزادی جسمانی یا ذہنی یا سیاسی، غلام انسان ہی بنتا ہے اور جدوجہد ہی اسے نجات دلاتی ہے۔