ہم روز ہی سوتے ہیں۔ سونا جاگنا ہمارے روزمرہ کے معمول میں شامل ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں نیند بہ آسانی آتی ہے اور کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ بے خوابی کی شکایت کرتے ہیں۔ بے خوابی کی شکایت دائمی طور پر کم ہی ملتی ہے۔ عام طور پر چند افراد کے سوا زیادہ تر میں بے خوابی کی شکایت وقتی ہوتی ہے۔ پریشانی‘ تشویش‘ نفسیاتی دبائو اور خوف کی وجہ سے نیند متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح چند جسمانی امراض میں بھی نیند متاثر ہوجاتی ہے اور جیسے ہی ان امراض کا قرار واقعی علاج ہوتا ہے ویسے ہی نیند کی کمی کی شکایت بھی دور ہوجاتی ہے۔
دراصل نیند کا نظام بہت نازک ہے اور یہ نظام جسمانی و ذہنی خرابی ہونے کی صورت میں متاثر ہوجاتا ہے۔ کسی بھی صحت مند شخص کے لیے نیند بہت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ نیند نہ آنے کی صورت میں تھکان اور دن کے اوقات میں غنودگی کا بڑھ جانا‘ توجہ کے ارتکاز میں کمی‘ جھنجھلاہٹ اور چڑچڑاپن وغیرہ مزاج میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم نیند کے نظام‘ اس نظام میں واقع ہوجانے والے خلل اور اس نظام میں خلل کے اسباب اور ان اسباب کے سدباب کے بارے میں نہایت آسان طریقے بتائیں گے۔
جب ہم سوجاتے ہیں تو دراصل ہم اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔
قدیم معاشروں میں نیند کو چھوٹی یا جز وقتی موت سمجھا جاتا تھا اور یہ بات کچھ اتنی غلط بھی نہیں ہے۔
ہم بے خبرہوتے ہیں‘ تاہم ہمارا جسمانی نظام اپنا عمل جاری و ساری رکھتا ہے۔ نیند ہماری ضروریات میں شامل ہے۔ ہم نیند سے بیدار ہونے پر اپنے آپ کو ترو تازہ اور ہشاش بشاش محسوس کرتے ہیں اگر ہماری نیند اچٹ رہی ہو‘ یا بار بار ہماری آنکھ کھل جائے تو ہم ترو تازگی کی اس کیفیت کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند ہمارے جسمانی نظام میں کتنی اہمیت رکھتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ نیند کے دوران ہمارے جسم کی ایک ہی کیفیت رہتی ہو۔ ہمارا دماغ اور ہمارا جسم نیند کے مختلف مدارج سے گزرتا ہے۔ یہ مدارج درجہ اول نیند سے لے کر درجہ چہارم نیند تک کے مدارج ہوتے ہیں۔ درجہ اول نیند ابتدائی نیند کی کیفیت ہوتی ہے اور درجہ چہارم نیند انتہائی نیند کی کیفیت ہے۔
اس کے بعد آنکھوں کی تیز حرکت والی نیند کا درجہ ہے۔ درجہ چہارم سے ہمارا ذہن اور ہمارا جسم آنکھوں کی تیز حرکت والی نیند کے درجے میں جاتا ہے۔ ہماری روزانہ کی نیند کا تقریباً پانچواں حصہ‘ اسی قسم کی نیند پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ آنکھوں کی تیز حرکت والی نیند ایک عجیب و غریب کیفیت ہوتی ہے۔ ہماری آنکھیں اس نیند کے دوران دائیں اور بائیں تیزی سے حرکت کرتی ہیں۔ ہم خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے دل کی دھڑکن‘ اور سانس کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور ہم جنسی طور پر بیدار ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری جلد میں خون کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور جسمانی درجہ حرارت بھی تھوڑا سا بڑھ جاتا ہے۔ دماغی عمل کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور دماغ اتنا ہی بیدار ہوجاتا ہے جتنا کہ حالت بیداری میں بیدار ہوتا ہے۔
Insomnia
نفسیاتی محققین نے آنکھوں کی تیز حرکت والی نیند کو‘ حیات کی تیسری حالت قرار دیا ہے۔ یعنی اول حالت حیات کی بیداری ہے۔ دوم حالت حیات کی نیند ہے اور سوم حالت حیات کی آنکھوں کی تیز حرکت والی نیند ہے۔درجہ اول نیند سے درجہ چہارم نیند تک ہمارا دماغ نیند کی حالت یعنی سکون کی معمول والی کیفیت میں رہتا ہے۔ تاہم ہمارے ہارمون ہمارے خون کے دوران میں شامل ہوکر جسم کے مختلف حصوں میں پہنچتے ہیںاور ہمارا جسم اپنی روزانہ کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتا ہے۔
نیند کی حالت کی بنیادی معلومات حاصل کرنے کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کتنی نیند درکار ہوتی ہے؟ نیند کی مقدار ہماری عمر اور ہماری جسمانی تھکاوٹ سے تعلق رکھتی ہے۔
نومولود بچے تقریباً سترہ گھنٹے روزانہ سوتے ہیں۔ ذرا بڑی عمر کے بچے نو سے دس گھنٹے روزانہ سوتے ہیں اور بالغ افراد کے لیے آٹھ سے نو گھنٹے کی نیند کافی ہوتی ہے۔
جب ہم بوڑھے ہونے لگتے ہیں تو ہماری نیند کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ ہر شخص کی نیند کی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔ کچھ افراد تین سے چار گھنٹے سوکر بھی ترو تازہ ہوجاتے ہیں مگر ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ دوپہر میں سوجانے سے رات کو نیند دیر سے آتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جسمانی کام کرنے والے افراد‘ یا ورزش کرنے والی افراد کی نیند ان لوگوں کے مقابلے میں جو جسمانی محنت نہیں کرتے ہیں‘ بہتر ہوتی ہے۔
فرض کیجیے کہ اگر نیند نہ آئے تو کیا ہوگا؟ کبھی کبھار کی بے خوابی کے اثرات کچھ اتنے زیادہ نہیں ہوتے ہیں لیکن مسلسل بے خوابی کے اثرات بہت شدید تھکان محسوس ہونے لگتی ہے اور دن میں بار بار‘ غنودگی کی حالت طاری ہوجاتی ہے۔ قوت فیصلہ کمزور ہوجاتی ہے اور طبیعت میں اداسی رہنے لگتی ہے۔ یہ کیفیات ان افراد کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہیں جو بھاری گاڑیاں ڈرائیو کرتے ہیں یا بھاری مشینوں کو آپریٹ کرتے ہیں۔ روزانہ دنیا بھر میں ہونے والے حادثات کی ایک بڑی تعداد اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ڈرائیور کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح زبردستی جاگتے رہنے یا بلاو جہ کی شب بیداری کے بھی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔