ملے فرصت تو گہری نیند سو لوں کوئی اک آدھ رونا ہو تو رولوں مجھے یہ اِذن کب کہ لب میں کھولوں کوئی تدبیر ہو پاتی تو کرتے ! میں کیسے بخت کی کالک کو دھو لوں وہ میرا قتل کر کے مجھ سے بولے اجازت ہو تو اپنے ہاتھ دھولوں مجھے لگتا ہے پہلو میں نہیں ہے ذرا ٹھہرو میں اپنا دل ٹٹولوں میں کب سے رت جگوں کی قید میں ہوں ملے فرصت تو گہری نیند سو لوں تیری قربت کے روشن شبستاں میں زریں میں عمر بھر آنکھیں نہ کھولوں