یہ شعر آپ میں سے بیشتر نے یقینا سنا ہو گا کون کہتا ہے موت آئی تو مر جائوں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
اس کا مطلب ہے موت۔۔ زندگی کے تسلسل کا ہی نام ہے یہ بات عین اسلام ہے ۔۔کوئی فوت ہو جائے تو کہا جاتا ہے فلاں کا انتقال ہو گیا یعنی وہ اس دنیا سے اگلی دنیا میں ٹرانسفر ہو گیا انتقال کی ٹرم زمین کی خریدو فروخت میں بھی استعمال کی جاتی ہے آپ نے یہ بھی سنا ہو گا فلاں بزرگ کا وصال ہوگیا وصال کے معانی ہی ملنے کے ہیں ہجروصال سے اولیاء کرام، شاعروں اور عاشقوں کا گہرا رشتہ ہے مرزا غالب نے اس ضمن میں بڑے مزے کی بات کی ہے جو صوفی تبسم نے پنجابی میں اس کا منظوم ترجمہ کر کے حق ادا کر دیا ہے۔
بھاویں ہجرتے بھاویں وصال ہوئے وکھوں وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
ہمارے خیال میں زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے جس سے انکارممکن ہی نہیں لیکن ہم دنیا دار سمجھتے ہی نہیں ہیں دنیا کے میلوں اور جھمیلوں میں پڑے ہوئے ہیںاورہر شخص نے دولت کے پہاڑ اکھٹے کرنے کو مقصد ِ حیات بنا لیاہے۔اولاد کے لئے والدین کا سایہ سر سے اٹھ جانا ایک بڑا سانحہ ہوتا ہے۔
ٍْجلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اکثر اللہ تبارک تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لئے کوہ ِ طور جایا کرتے تھے وہیں سے انہیں ہدیات اور احکام ملتے تھے اسی دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا انتقال ہوگیا وہ کئی دن مغموم رہے آخرکار ایک دن موسیٰ علیہ السلام جب کوہ ِ طورپر پہنچے تو ندا آئی موسیٰ! جوتے اتار کر اوپر آنا موسیٰ علیہ السلام نے حیرانگی سے کہا اے باری تعالیٰ میں تو روزانہ جوتوں سمیت یہاں آتا رہتا ہوں۔
پھر آواز آئی موسیٰ! جوتے اتار کر اوپر آنا اب تمہارے لئے دعا کرنے والی ماں زندہ نہیں ہے ۔یہ ہے ماں کا رتبہ ۔۔ہم دنیا داروں کو اس ہستی کی فضیلت بتانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو ماںکی شان سے آگاہ کر دیا۔ میاں محمد بخش نے کیا خوب کہا ہے۔
بھراں بھائیاں دے دردی ہندے بھراں بھائیاں دیاں بھاواں پیو سردا تاج ۔۔ محمد ماواں ٹھنڈیاں ۔چھاواں
دنیا فانی ہے ،اس میں کوئی آدمی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا،ہر آدمی پر موت طاری ہوجاتی ہے،کسی نہ کسی دن روح اپنے جسم عنصری سے پرواز کر جائیگی لیکن ماں ماں ہوتی ہے اسی کے پائوں تلے جنت ہے۔حضرت لقمان حکیم نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے کہامیرے بیٹے جائو دنیاسے جنت کی مٹی لے کر آجائو،وہ گیاتھوڑی دیربعد مٹی لے کر آگیا، کمال کردیاحضرت لقمان حکیم نے اوربیٹابھی تولقمان حکیم کاتھااس نے بھی کمال کردیا۔سچی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ برتن میں دیکھ کر مکھن ڈالتاہے ۔لقمان حکیم نے اپنے بیٹے سے کہامیرے بیٹے !دنیامیں کہاں سے جنت کی مٹی لے کر آیاہے؟بیٹے نے کہاابوجان ! میں نے اپنی ماں کے قدموں کے نیچے سے مٹی اٹھائی ہے یہ حقیقت ہے کہ یہ مٹی جنت کی ہے،لقمان حکیم نے بیٹے کوشاباش دی۔۔
سچ ہے موت کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے ؟
شنید ہے امام ِ اہل سنت احمد رضاخان بریلوی کا جنازہ اتنا بڑا تھا کہ کئی بار نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر بھی بہت سے لوگوںکو یہ کہتے سناگیا کہ وہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی سعادت سے محروم رہ گئے ہیں۔ مجاہد ِ ملت مولانا عبدالستارخان نیازی کی وفات پرپورا عالم ِ اسلام سوگوارتھا آپ کا نماز ِ جنازہ کئی بارپڑھایا گیا درجنون مقامات پر غائبانہ نماز ِ جنازہ بھی پڑھا گیا اسی طرح بانی ٔ پاکستان قائد ِ اعظم محمدعلی جناح، امامِ اہلسنت مولاناالشاہ احمد نورانی،مولانا حامدعلی خان اور غزالی ٔ دوران سیدسعید احمدکاظمی ایسی شخصیات تھے کہ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی لوگ دھاڑیں مارتے ہوئے گھروں سے نکل آئے نماز ِ جنازہ میں ہزاروں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، عبدالستارایدھی ،غلام حیدروائیں، شاہ فیصل شہید، غازی ممتازحسین قادری کے جنازے تاریخی تھے شرکاء کی تعداد کوگننا ممکن نہ تھا۔ حضرت مولاناقاضی محمدزاہدالحسینی بہت بڑے عالم اور سچے عاشق رسول تھے ،یہ وہ عالم دین ہیں جب دنیاسے وصال فرماگئے قبر میں اتاراگیاچند لمحات کے بعد ان کی قبر پر خود بخود سبزہ پیداہوگیانبی کریمۖ سے سچی محبت کی دلیل ہے ۔وہ جب کسی کی ماں کی فوتگی پر تعزیت کے لیے تشریف لے جاتے تویہ جملہ کہتے ”بھلیاماواں ختم نیہ ہوندیاں ”ایک جہاں سے دوسرے جہاں منتقل ہوجاتی ہیں ان کی دعائیں اولاد کے لیے جاری رہتی ہیں۔ خوش نصیب وہ ہیں جونیک لوگوں کے نمازجنازہ میں شریک ہوتے ہیں ۔کبھی یوں بھی ہوتاہے کہ جنازہ میں شرکت کی وجہ سے معافی مل جاتی ہے اور جنازہ پڑھنے والوں کی بخشش کر دی جاتی ہے۔نمازجنازہ میں کتناپیاراجملہ ہے اللھم اغفر لحینا:اے اللہ ہمارے زندوں کی بخشش فرما۔
وفات پانے والوں کیلئے ان کی نیک اولاد بھی صدقہ جاریہ ہے
جن کے والدین فوت ہوچکے ہیں وہ ہر روز ان کیلئے دعا کرنا معمول بنالیں ۔جن کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خوب خدمت کریں ہم نے جوکچھ پایاہے وہ ماں باپ کے جوتوں کے صدقے پایاہے ،انسان کے لیے موجودہ دور میں والدین کی عظمت کوسامنے رکھ کرزندگی بسر کرناعبادت کااعلیٰ مقام ہے ۔اللہ تعالیٰ کاحکم ہے کہ میری عبادت کی جائے اورماں باپ کی اطاعت کی جائے اپنے پیاروں کی جدائی ہم سب کودعوت فکر دے رہی ہے کہ”توبہ کرو”رب کی عبادت کرواور نبی کریمۖ کی اطاعت کرواسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
موت کا نام سن کر ہی اکثر لوگوں پر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے حالانکہ غالب نے ہی کہا ہے
موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟
یقینا ہر زندہ نے موت کا مزا چکھناہے زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے اور جو اس بات کو فراموش نہیں کرتے وہی دین و دنیا میں سرخرو ہوتے ہیں۔ جو اللہ کو راضی کرلیتے ہیںان کے لئے یہ دنیا ایک امتحان گاہ بن جاتی ہے پھر یہ دنیا اور وہ دنیا کوئی معانی نہیں رکھتی وہ برملا کہہ سکتے ہیں۔
کون کہتا ہے موت آئی تو مر جائوں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا