تحریر : سالار سلیمان اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں تقریباً نوے لاکھ گھروں کی کمی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت کم از کم نوے لاکھ گھروں کو فوری تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب اگر ہم دیکھیں تو سالانہ صرف چار لاکھ گھروں کا اضافہ ہو رہا ہے اور نتیجہ کے طور پر ہر سال گھروں کی طلب میں اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بالکل سادہ سی بات ہے کہ اپنی چھت ہر ایک کی ضرورت ہے۔ اب سالانہ بننے والے گھروں میں زیادہ تعداد اُن گھروں کی ہے کہ جو مراعات یافتہ طبقہ کیلئے ہوتے ہیں اور اُن کو خریدتے بھی وہی لوگ ہیں جو اس کی مکمل سکت رکھتے ہیں، یا اس بات کو یوں لے لیجئے کہ یہ گھر وہ لوگ خریدتے ہیں جو کہ متمول اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے بینک اکاونٹس میں اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ وہ ایک گھر تعمیر کر سکیں یا تعمیر شدہ گھر کو خرید سکیں۔
گھروں کی کمی کے مسئلے میں اضافہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی آبادی ہر سال بغیر کسی منصوبہ بندی کے بڑھتی جا رہی ہے اور دوسری جانب معاشی حالات کی وجہ سے نوکریاں یا تو بالکل ہی کم ہیں اور یاں نا پید ہیں۔ بدلتے وقت نے ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے اور آج کل اکثر جگہوں پر حالات کچھ ایسے ہیں کہ ایک فرد کمانے والا ہے اور اُ س پر کم از کم پانچ یاں چھ افراد کی ذمہ داریاں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچت کا تو امکان ہی پیدا نہیں ہوتا ہے الٹا ہر مہینے اخراجات بڑھتے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے مڈل کلاس یا غرباء اپنے گھر تعمیر نہیں کر پاتے ہیں۔
اوپر بیان کردہ صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں کم آمدنی والے طبقے کیلئے مناسب قیمتوں پر گھروں کی دستیابی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ اگر اس مسئلے کو آج حل نہیں کیا جاتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ آنے والے سالوں میں یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ پھر اس کو حل کرنا ناممکنات کی حد تک مشکل ہو جائے گا ۔تاہم موجودہ صورتحال نے ملک میں ایک اور مسئلہ بھی کھڑا کر دیا ہے اور اگر مسئلے کو ایک سطر میں بیان کرنا ہو تو ہم اس کو ‘کچی آبادیوں کے مسائل ‘ کہتے ہیں۔ یہ کچی آبادیاں عموماً شہر کے اطراف میں قائم ہوتی ہیں۔ماہرین کے مطابق اِس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور مختلف وجوہات کی بنیاد پر ان کو ریگولرائز کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ کیا وجوہات ہیں ؟ ان کا ذکر میں ذیل میں کر رہا ہوں۔
Slum Populations
کچی آبادیاں بڑھنے کی وجوہات : پاکستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیر دہائیوں سے افقی طور پر شروع کی جاتی ہے ۔ اس ضمن میں شہر کے مرکزی علاقوں میں سستے گھروں اور اپارٹمنٹس کیلئے بہت ہی کم زمین بچتی ہے ۔ اب چونکہ زمین تو کم ہے لیکن آبادی بھی بڑھ رہی ہے ‘ اس حساب سے طلب میں اضافہ بھی ہو رہا ہے تو نتیجتاً پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتاہے ۔ یہ اضافہ ہو شربا اضافے میں تبدیل ہوتاہے اور غریب آدمی کا وہ خواب کہ اُس کا اپنا چھوٹا سا گھر ہو’ وہ خواب ہی رہتا ہے ۔ پاکستان کی سب سے بڑی پراپرٹی ویب سائٹ زمین ڈاٹ کام کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں گزشتہ سال پراپرٹی کی قیمتوں میں اوسطاً 13.64فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔شہر میں پانچ مرلہ اور دس مرلہ کے گھروں کی قیمت بالترتیب 16.73فیصد اور 25.26فیصد بڑ ھ گئیں تھیں۔ کراچی میںبھی تقریباً ایک سے نتائج تھے جہاں زمین کی قیمتوں میں 23.4فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں پر لوگ خرید نہیں سکتے ہیں تو وہاں پر وہ سرکاری زمین پر عارضی رہائش بنا لیتے ہیںاور نتیجتاً کچی آبادی وجود میں آتی ہے ۔ اعدادو شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آباد ی کا 38فیصد کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے اور اس شرح میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
کچی آبادی کے مسائل : پاکستان میں کچی آبادی کا تصور جرائم کے ساتھ نتھی ہے ۔ اب یہ تصور کیسے بنا اس کے بارے میں بات کرنا تو مشکل ہے لیکن یہ تصور بن چکا ہے اور اس میں کہیں نہ کہیں حقیقت بھی ہے۔ ایک اور بات جو کہ کچی آبادیوں میں عام ہے وہ وہاں پائی جانے والی بیماریاں ہیں۔ کچی آبادیوں میں جرائم پیشہ عناصر کی موجودگی کی وجہ سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ان خود ساختہ تعمیرات کو کلیئر کیا جا سکے جو کہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔
دستیاب رپورٹس کے مطابق ان آبادیوں میں منشیات فروشی ‘ اسلحے کی غیر قانونی خرید و فروخت اور جرائم پیشہ عناصر کو پناہ بھی دی جاتی ہے۔ ان عناصر کی وجہ سے معاشرے میں جرائم میں اضافہ بھی ہوتا ہے جو کسی بھی صحت مند معاشرے کی تشکیل میں زہر قاتل ہے ۔مزید براں’ ان آبادیوں کی حالت اس حد تک خستہ اور گندی ہوتی ہے کہ وہاں پر صحت و صفائی کا نظام نہ ہونے کے برابرہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ علاقے بیماریوں کی آماجگا ہ بن جاتے ہیں۔ اس وجہ سے حکومت کی مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ ایسے علاقوں کو بھی ریگولرائز کرے تاکہ ان مسائل پر قابو پایا جا سکے۔
Slum Populations Pakistan
مسائل کا حل : اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے اقدامات ہیں جن پر عمل کر تے ہوئے ملک بھر میں خود ساختہ طور پر قائم سینکڑوں کچی آبادیوں کے مندرجہ بالا مسائل سے نبرد آزماہوا جا سکتا ہے ۔ جن علاقوں میں کچی آبادیاں قائم ہیں’ اُن کے کم از کم 20فیصد ی حصے کو استعمال میں لاتے ہوئے وہاں پر کثیر المنزلہ فلیٹس بنا دیے جائیں ‘ جہاں پر اِن سمیت دیگر لوگ بھی رہائش پذیر ہو سکیں۔ باقی ماندہ جگہ چونکہ سرکاری ملکیت میں ہوگی تو حکومت اُس کو کسی بھی کار آمد مقصد کیلئے استعمال کر سکتی ہے ۔ ملک بھر میں قائم کچی آبادیوں کا تمام تر ریکارڈ فوری طور پر اکٹھا کیا جائے اور وہاں رہائش پذیر تمام تر افراد نادرا کے ریکارڈ میں رجسٹرڈ ہونے چاہئے ۔اِ ن علاقوں میں فلاحی کام کرنے والے ادارے اور مخیر حضرات مل کر کام آمدنی والوں کیلئے خوبصورت رہائش گاہیں بنا سکتے ہیں ، جس سے ایک طرف تو معاشرے کی خدمت ہوگی تو دوسری جانب کچی آبادیوں کے مسائل میں بھی خاطر خوا ہ کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ یہاں پر جو عمارتیں بنائی جائیں’ اُن کے گراونڈ فلور پر حکومت دکانیں تعمیر کر سکتی ہے ، جس سے اُس علاقے میں کاروبار کے ذرائع پیدا ہونگے جو کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کو کم کرنے میں معاون ثابت ہونگے۔
اس کے علاوہ طویل المدتی پالیسی سے حکومت دیہی علاقوں میں ایسی چھوٹی آبادیاں قائم کر سکتی ہے ‘جہاں پر کچی آبادی کے لوگ رہ سکیں۔ یہاں پر یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اُن کو ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات بھی اُسی علاقے میں فراہم کرے ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ شہروں سے دیہاتوں میں ہونے والی ہجرت میں کمی آ ئے گی۔ اس ضمن میں ایک گھر ‘ ایک خاندان کی بنیاد پر فراہم کیا جا سکتا ہے اور چیک اینڈ بیلنس کا سخت نظام ا س بات کو یقینی بنا سکتاہے کہ کوئی بھی خاندان ایک سے زائد گھر نہ بنا سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ لینڈ مافیا کو بھی اُن علاقوں سے نکال باہر کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں زمین کے مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ اس عمل سے اُن علاقوں میں بھی جرائم پیشہ عناصر کی غیر موجودگی کی وجہ سے جرائم کی بیخ کنی ممکن ہو سکے گی۔اگر اس قسم کی ایک یا دو ماڈل کالونیاں بنالی جائیں تو کچی آبادیوں کو ریگولرائزڈ بھی کیا جا سکتا ہے اور اِن کے مسائل سے بھی نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے۔