تحریر : شاہد شکیل سائنس دانوں کی مہربانی سے آج کل سب کچھ سُکڑ کر سِلم اور سمارٹ ہو گیا ہے انسانوں اور مشینوں کو اتنا پتلا کر دیا ہے کہ موٹے عدسے کا چشمہ ہی نتائج ظاہر کرتا ہے اور اگر ایسا جاری رہا تو دنیا ہی شرنک ہو جائے گی بلکہ ہو گئی ہے کیونکہ سمارٹ فونز کی بدولت دنیا ہماری جیب میں آ گئی ہے، اگر رَن اور سپیڈ کا یہی عالم رہا تو مستقبل قریب میں بے روزگاری کی شرح بڑھے سو بڑھے گی ان گنت اموات کا سلسلہ بھی جاری رہے گا کیونکہ بے روزگاری میں لوگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کاؤچ پر براجمان رہیں گے اور پھول کر گول گپے بنتے رہیں گے جس کا انجام صرف موت ہی ہو سکتا ہے۔
سوال یہ ابھرتا ہے کہ بے روزگاری کا موٹاپے اور موت سے کیا تعلق؟ تشریح کئے بغیر بغلیں جھانکنیں کے مترادف ہوتا ہے کہ بھائی لوگ بے روزگار کیوں ہونگے، بات بالکل سادہ سی ہے کہ میلینئم کے بعد سائنس نے جس برق رفتاری سے ترقی کی سپیڈ پکڑی ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔موٹی توند والے ٹیلی ویژن کو کباڑ خانوں میں پھینک کر سلم ٹی وی کو دیواروں اور الماریوں میں فٹ کر دیا گیا ہے کیسٹس کی جگہ سٹکس آ گئی ہیں آڈیو کیسٹس میں زیادہ سے زیادہ بارہ گانے جبکہ سٹکس میں بارہ سو نہیں بارہ ہزار گانے سیو ہو جاتے ہیں۔
تیس برس قبل کراچی سے پشاور کی فون کالز پر لوگ گلا پھاڑ کر چیختے چلاتے تھے کہ آواز نہیں آ رہی اور آج امریکا ،کینیڈا سے لوگ پاکستان کے کسی بھی گاؤں میں بسنے والے اپنے عزیز و اقارب سے سوشل میڈیا کے توسط سے ایسے ویڈیو لنک پر بات چیت کرتے ہیں جیسے آمنے سامنے بیٹھے ہیں،یہ فاسٹ ترقی اور سمارٹ لائف نہیں تو کیا ہے۔
اصل میں انٹر نیٹ کا استعمال کسی خاص مقصد کیلئے متعارف ہوا تھا لیکن وقت اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین نے اسے ہر خاص و عام کے ہاتھ میں دے دیا کہ یہ انٹر نیٹ ہے اسے جیسے جی چاہے اور جب چاہے استعمال کریں ۔کسی زمانے میں ہندوستانی فلم کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا ٹھوکر پہ ہے سارا زمانہ جو بن جائے میرا نشانہ مشکل ہے اس کا بچ جانا کیونکہ ساری کی ساری یہ دنیا میری جیب میں ہے ،اس وقت تو نہیں البتہ آج دنیا بچے بچے کی جیب میں ہے۔اصل موضوع سمارٹ لائف کی طرف آتا ہوں کہ آنے والے بیس اور تیس برسوں میں انٹرنیٹ اتنی آسانی پیدا کر دے گا کہ سب کام وَن کِلک یا ون ٹچ سے ہو جایا کریں گے مثلاً گھر بیٹھے بٹھائے شاپنگ کی جائے گی اور ڈرون سسٹم سے ڈیلیوری ہو گی کسی کو قطاروں میں کھڑا ہوکر اپنی باری کے انتظار میں ٹانگوں کو تڑوانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ کیا مصیبت ہے ابھی تک باری نہیں آئی اتنی دیر سے کھڑے ہیں وغیرہ۔دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک میں فاسٹ شاپنگ سسٹم کی ابتداء ہو چکی ہے تاہم حکومتی ادارے مطمئن نہیں کہ اس سسٹم کو فائنل کیا جائے اور روزمرہ زندگی میں انسانوں کی سہولت کیلئے استعمال میں لایا جائے۔
Smart Life
جدید نیٹ ورک سسٹم سے شاپنگ سینٹر میں کیش یا کارڈ سے ادائیگی کا نظام مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا بلکہ چند برسوں میں کرنسی بھی باقی نہیں رہے گی،کئی تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے جس سے ایک طرف آسانی اور دوسری طرف انسانوں کو شدید مشکلات کا بھی سامنا کرنا ہو گا۔گزشتہ برس جرمنی کے چند بڑے شاپنگ سینٹر نے سمارٹ شاپنگ سسٹم متعارف کروایا ہے مثلاً رے وے،لڈل اور رئیل جیسے بڑے شاپنگ سینٹر میں آن لائن روزمرہ اشیاء کی خریداری کا آغاز ہو چکا ہے اب کسی کو قطار میں کھڑا نہیں پڑے گا اور گھر بیٹھے آلو ،پیاز، ٹماٹر ،دودھ دہی وغیرہ خرید سکے گا اور دو دن بعد ڈیلیوری ہو جائے گی۔مکمل پلاننگ کے تحت مطلوبہ اشیاء کی لسٹ تیار کی جائے آن لائن منتخب دوکان کو لسٹ سینڈ کی جائے اور دو دن بعد سارا سامان گھر کے دروازے تک پہنچا دیا جائے گا۔ اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے بے روزگاری کی ابتداء ہوتی ہے کیونکہ اس فاسٹ سسٹم سے دنیا بھر کے شاپنگ سینٹرز میں کام کرنے والے لوگ رفتہ رفتہ جاب کھو رہے ہیں اور متبادل جاب حاصل کرنا ناممکن ہو چکا ہے، علاوہ ازیں اگر کوئی خود شاپنگ کرنا چاہتا ہے تو بھی متبادل سسٹم یعنی کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کر سکتا ہے مثلاً آلو پیاز کی تھیلی یا پلاسٹک بیگ پر لگے کیو آر کوڈ کو مخصوص مشین پر سکین کیا جاتا ہے اور ڈسپلے پر ٹوٹل اماؤنٹ دکھائی دینے کے بعد کارڈ سے ادائیگی ہوتی ہے اس سسٹم سے بھی کئی سیلز مین بے روزگار ہو چکے ہیں۔
امریکا میں سیون الیون شاپنگ سینٹر نے بذریعہ ڈرون ڈیلیوری کا تجربہ کیا جو کامیاب ہے جرمنی میں بھی ایمیزون ڈرون ڈیلیوری کا تجربہ کیا جائے گا۔دوہزار سولہ میں سیمسنگ کمپنی نے انٹر نیشنل الیکٹرونک نمائش میں گھریلو استعمال کی جدید مشینوں کو متعارف کروایا تھا جس میں خود نظام سے واشنگ مشین اور ریفریجریٹر اپنی مطلوبہ خواہشات کا اظہار کریں گے مثلاً واشنگ مشین صارف کو مطلع کرے گی کہ کون سا واشنگ پاؤڈر استعمال کیا جائے یا فرج وائس سسٹم سے اطلاع دے گا کہ کون سی اشیاء کم ہیں یا خراب ہونے کا خدشہ ہے وغیرہ،اور اس طرح دیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء کی بازیابی میں آسانی پیدا ہوگی کسی کو طویل قطاروں میں چہ مگوئیاں نہیں کرنی پڑیں گی جس سے وقت کی بچت ہوگی اور اعصابی دباؤ میں کمی پیش آئے گی۔
Internet Online Shopping
سوشل میڈیا ،انٹرنیشنل کمپنیز،نیٹ ورکنگ سسٹم ،موبائل ایپس وغیرہ ذمے داری سے اپنا کام سر انجام دیں گے ،ایک سوئی سے برینڈ نیو کار کی خریداری گھر بیٹھے ہو سکے گی اور چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر مطلوبہ اشیاء گھر کے دروازے تک پہنچا دی جائیں گی۔دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ایک طرف جدید تیکنک انسانوں کے لئے سہولت اور آسانیاں پیدا کرے گی تو دوسری طرف گھر بیٹھے افراد موت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ لاکھوں کروڑوں لوگ دنیا بھر میں اکیلے زندگی بسر کر رہے ہیں اور جب انہیں کسی ذریعے سے بات چیت یعنی کمیونیکیشن کے مواقع فراہم نہیں ہونگے تو نفسیاتی امراض کا شکار ہونگے کئی افراد کے لئے ٹیلیویژن،موبائل یا کمپیوٹر ہی ان کا ساتھی نہیں ہیں بلکہ صحت کیلئے پارکس اور گارڈن وغیرہ میں چہل قدمی بھی لازمی ہے لیکن اگر سائنس اتنی ترقی کر جاتی ہے کہ انسانوں کی موت کا سبب بنے تو ایسی سائنس کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔
کئی افراد ابھی سے ہی ذہنی کوفت محسوس کر رہے ہیں کہ سائنس اچھی ہے بری،لیکن سائنسدانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی جئے یا مرے ان کا کام ہے ریسرچ کرنا، دریافت اور ایجاد کرنا۔سمارٹ فون کا جادو تو چل چکا ہے سب اسکے سحر میں کھو چکے اورناچ رہے ہیں اور جس نے اسے ایجاد کیا ہے شاید اس کے پاس یہ مشین ہو ہی نہیں،لاکھوں کروڑوں ڈالرز کمانے کے چکر میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کیلئے موت کا سامان پیدا کرنا سائنس نہیں جہالت ہے،باالفاظ دیگر انسان ہی انسان کا دشمن بن چکا ہے اور خوشی سے ترقی کے نعرے مار رہا ہے،کہ سمارٹ لائف تیار ہو رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ سائنسی سمارٹ لائف ایزی سمارٹ موت بن جائے۔