تحریر : عبدالجبار خان دریشک موجودہ دور میں ہر چیز کمرشل ہو رہی ہے۔ جو چیزیں کبھی عام پائی جاتی تھیں۔وہ کمرشل ہوئیں تو ایسی نایاب ہو گئیں، کہ بس تصاویر میں ہی ان کی زیارت نصیب ہو تی ہے مثلاً ٹماٹر آلو پیاز اور گدھے وغیرہ وغیرہ زندگی کے تما م افعال سوائے رونے کے سب کے سب کمرشل ہو چکے ہیں۔ ہنسی بھی خریدنی پڑتی ہے ورنہ پہلے کوئی تھوڑا سا گدگدا دیتا تو قہقوں کانہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا، جو پسلیوں میں اٹھنے والے درد پے جا کے اختتام کو پہنچتا ہے،اب تو مسکرانے کے لئے بھی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے کچھ دور ہی ایسا چل رہا ہے۔
بات کمر شل کی ہو رہی تھی کہ غیر اہم چیزیں جن کو کبھی ہم فالتو سمجھتے تھے، کاروباری حضرات نے ان کو ہمارے لئے اہم بنا دیا ہے،اب ٹماٹر اور آلو کو ہی لے لیں ، جب ان سے کیچ اپ اور چپس بنائے جانے لگے ہیں ان کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے ،یاد ہے نہ جب بغیر ناغے کے آلو پکتے تھے تو کیسے آلو جیسا منہ بن جاتا تھا۔ اب تو آلو کی قیمتیں سن کر بھی آلو جیسا منہ نہیں بنتا ہے بس منہ بنتا بھی ہے تو ٹومی کی طرح ،جب وہ کسی سے لڑ کر آتا ہے۔
پہلے دور میں آلو ٹماٹر اور کریلے عام اور دل پر بھاری پڑنے والی سبزیاں ہوتی تھیں تب ایسے ہی دل پر بھاری پڑنے والے بندے بھی ہوتے تھے۔ جن کو اکثر ناپسندگی کی وجہ محلےکے لوگ سبزیوں والے نام سے پکارتے تھے۔اب تو وہ بھی معزز ہو گئے ہیں دل کرتا بھی ہے ان کو آلو کریلہ بولیں، پر خوف آتا ہے یہ معزز آلو اور کریلہ ہیں تو سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے ایسی گستاخی سے بچنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ پھر بھی کبھی دل کی حسرت پوری کر لیتے ہیں۔
لو جناب یہ بھی کوئی بات ہو ئی گدھا بھی ۔۔۔۔ہاں جناب اب گدھا بھی …..اکیسویں صدی ہے ترقی کی ریل پیل ہے تو گدھے کیوں ترقی نہ کر یں۔ دیکھا نہیں کہ گدھے کتنی ترقی کر گئے ہیں حالانکہ کے اکیسویں صدی سے پہلے بھی گدھا کمرشل تھا لیکن یہ اس وقت وہ عام لو گ کے ہاتھ میں تھا اس مرتبہ تو وہ کاروباری ہاتھوں میں کیا آیا ، اب تو دیکھنے کو بھی نہیں ملتا اب اس کی شکل بھی بھولتی جارہی بس اندازہ لگا لیتے ہیں کہ شاید یہی گدھا ہو گا۔ گدھے خبروں اور ٹی وی پر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جب ان کا تذکرہ ہو رہا ہو تو ان گدھوں کی کوئی نہ کوئی ویڈیو یا تصاویر دیکھائی جاتی ہیں۔ ٹی وی والوں کی مہربانی ہے وہ ہمیں گدھے دیکھا دیتے ہیں نہیں تو کوئی چار سال پہلے دیکھے تھے ایک وقت تھا جب گدھے بار برداری میں زیر استعمال تھے تو اس کو ہانکنے والا اس کی خوب عزت افزائی کرتے ہو ئے اچھی خاصی لتریشن در لتریشن فرماتا تھا بچپن میں جس سکو ل میں ہم پڑھتے تھے تو ساتھ ہی اینٹوں کا بھٹہ تھا وہاں کچی اینٹیں گدھوں پر لاد کر بھٹے کے اندر جمع کی جا تی تھیں ہمارے استاد محترم جب زور دار آواز سے حکم فرماتے تھے گدھوں جلدی سے مرغے بنو تو سکول کے باہر گزارنے والے اصلی گدھے بچارے پریشان ہو جاتے ، کہ یہ فرمان کہیں ان کے لیے تو جاری نہیں ہوا، ہم تو بغیر کسی چوں چا کے استا د محتر م کے فرمان کی بجا آواری کرتے ہوئے گدھے سے دیسی مرغے بن جاتے تھے ، مزے کی بات وہ گدھے اور پر یشان ہو جاتے تھے کہ یہ کیسے گدھے ہیں جو مر غے بنتے ہیں۔ کبھی کبھی ہماری وجہ سے ان گدھوں کے دل میں بھی تعلیم کے حصول کی خواہش ابھرتی ہوتی ہو گی ، کہ جب یہ گدھے سکول میں پڑھتے ہیں تو ہم کیوں نہیں،ایک دن ہم بھی پڑھ لکھ جا ئیں گے تو پڑھے لکھے گدھوں میں ہمارا شمار ہو گا۔
پہلے دور میں بندے اغوا ہو تے تھے یا پھر پڑوس والوں کے ککڑ، اب تو سنا ہے گد ھے بھی اغوا ہو نے لگے ہیں۔ محتاط رکھیں گدھے اغوا ہو رہے ہیں اپنے اپنے گدھوں کا خاص رکھیں ۔ اغوا ہونے والے گدھوں کا لباس چائینہ اور گوشت فلاں شہر جاتا ہے، ایسا میں نے سن رکھا ہے۔ میں تو اس شہر میں زیادہ نہیں جاتا پر میرا دوست بتا رہا تھا وہاں ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن میں سچ بتاو ¿ میر ی تو عادت ہے ، میں سفر میں بھی روز رکھ کے جاتا ہوں پھر میں کیوں پریشان ہو رہا ہوں لیکن کبھی کبھی دل میں برے خیال آتے رہتے ہیں پتہ نہیں کیوں ؟؟؟
بات گدھوں کی اہمیت کی ہو رہی ہے تو آج کل جس کے پاس اپنا پالتو گدھا ہے وہ اغوا کاروں کے ڈر سے ، اس کا نا م کھوتا رکھ لیتا ہے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ یہ گدھا ہے۔ پھر ایسا گدھے کا خیال بہت کرتے ہیں بدہضمی خود کو ہو تو سوڈ واٹر کی بوتل گدھے کو پلا دیتے ہیں کہ کہ گدھوں ہاضمہ درست رہے ۔ ایسے ہی ایک مر تبہ سند ھ کے کسی شہر میں ایک شخص نے دوکان سے کولڈ ڈرنک کی سبز بوتل وہی والی……… جس کے اشتہار میں بند …… ، لے کر اپنے گدھے کو پلا دی ، جس پر دوکاندار اور گدھے کے مالک کے درمیا ن جھگڑا شروع ہو گیا کہ تم نے بوتل گدھے کو کیوں پلا ئی ؟ معاملہ پولیس میں چلا گیا پھر کسی معزز بندے نے صلہ کروا کے معاملہ ختم کر وا دیا اور دوکاندار کو سمجھایا جب قصائی گدھے کا گوشت انسانوں کو کھلا سکتے ہیں تو گدھا بھی بوتل پی سکتا ہے۔ پھر یہی وجہ ہو گی اکثر گدھے پی کے سٹرکوں پر غلا غپاڑا کر رہے ہوتے ہیں گدھے کہیں کے! جر منی میں تو ایک اور انوکھا کام ہو گیا ایک گدھا مجرم کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوا جس کو جج نے جرم ثابت ہو نے پر سزا بھی سنا دی، اس گدھے نے ایک مہنگی کار کو اپنے دانتوں سے کا ٹنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے کار پر نشانات پڑ گئے۔ کار کے مالک نے انشورنس کمپنی سے مر مت کا معاوضہ مانگا تو کمپنی نے معزرت کر لی ،جس پر وہ شخص عدالت چلا گیا جج نے گدھے کو مالک سمیت عدالت میں طلب کر لیا ،جب گدھا عدالت میں پیش ہو ا تو ماحول انتہائی خوشگوار ہو گیا سب حیران ہو رہے تھے کہ گدھا عدالت میں پیش ہو رہا ہے ! ایک عینی شاہد کی گواہی سے گدھے پر فرد جرم عا ئد ہوئی اور گدھے کے مالک کو عدالت نے ہدایت جاری کی کہ کار کی مرمت کا معاوضہ وہ اداکرے۔اس لئے تو کہتے ہیں قانون سب لئے برابر ہے۔
بات مسکرانے سے شروع ہوئی تھی کہ مسکرانے کی قیمت ہوتی ہے پر نہیں، مسکراہٹیں تحفہ ہوتی ہیں دوسروں کے لئے، خود مسکرایں یا دوسروں کو دیکھ کر دل سے مسکرایں یہی تو زندگی ہے۔