تحریر : شاہ فیصل نعیم کائنات میں ہونے والے واقعات کچھ دنوں کو خاص اہمیت سے نواز دیتے ہیں ، وہ بڑا خوش قسمت دن تھا جب چاغی کے پہاڑوں سے دھواں اُٹھ رہا تھا پاکستان ہی نہیں پوری امتِ مسلمہ کا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا۔ اسے اللہ کا فضل کہیں یا اس گلشن کی آبیاری کرنے والوں کی طرف سے کی گئی سعی مگر جو بھی تھا یہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے سرمایہ حیا ت سے کم اہمیت نہیں رکھتا ، عالمِ اسلام کی پہلی اور اقوامِ عالم کی ساتویں ایٹمی طاقت کا تاج تو پاکستان کی زینت تھا ہی اُس کے ساتھ ساتھ 28مئی کے قابلِ فخر دن کو “یومِ تکبیر” جیسے خطاب سے نوازا گیا۔ وہ لوگ جنہوں نے اس دن کا خواب دیکھتے ہوئے کہا تھا:”یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس ایٹم بم ہے اور اب ہندوؤں نے بھی یہ صلاحیت حا صل کرلی ہے، ایسے میں عالم اسلام کےلیے ڈوب مرنے کا مقام ہے”۔ اس نے اپنی کابینہ کے سامنے کہا تھا : “مجھے ہر قیمت پہ ایٹم چاہیے”۔ زمانے کے فرعونوں نے اُسے کہاتھا:
“اگر تم نے ایٹم بنایا توہم تمہیں دنیا کےلیے مثال بنا دیں گے”۔مگر اُس شخص کے کہے گئے الفاظ آج بھی تاریخ کے سینے میں من و عن محفوظ ہیں:”بھٹو گھاس کھا لے گامگر ایٹم ضرور بنائے گا”۔آج اُس کا خواب شرمندہِ تعبیر ہو رہا تھا مگر وہ دنیا میں نہیں تھا ہاں اُس کا نام باقی تھا، اُس کا کام باقی تھا۔اس دن فلسطین میں یہودیوں کے ظلم وستم کے ستائے ہوئے مسلمانوں نے کافروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ جتنے ظلم چاہتے ہوکر لواب تمہارے ظلم کے دن تھوڑے ہیں ، پاکستان سے ہمارے بھائی ہماری مدد کو پہنچنے والے ہیں تمہارے جبر و استبداد کا قصہ تمام ہونے کو ہے،کشمیر میں لٹتے ہوئے حریت کے قافلوں نے کہا تھا اے ! جہاں تک بھا گ سکتے ہو بھاگ لو وہ وقت جلد آنے والا ہے کہ خطہ زمین تم پہ تنگ کر دیا جائے گا اور تم مسلمانوں کے آہنی ہاتھوں سے بچ نہیں پاؤ گے ،
شام، عراق، مصر، یمن، غزہ، آذربائیجان،قبرص الغرض جہاں جہاں بھی مسلمان ظلم کے خلاف صف آرا تھے اُنہیں جینے کی ایک نوید مل گئی تھی۔ وہ سوچنے لگے تھے کہ اب ہمیں ہماری کھوئی ہوئی میراث واپس مل جائے گی، پھر چہاردنگِ عالم میں اسلام کا پرچم لہرائے گا، ظلم مٹ جائے گا ، کوئی درندہ کسی کے حقوق پامال نہیں کرےگا،ہر کسی کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، اب ہم ملکی سلامتی کے خطرے سے آزاد ملک کی ترقی کے بارے میں سوچیں گے۔
Pakistan Nuclear Missile
مگر یہ سب قصے بن گئے اور ان کی اہمیت کہانیوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ ایٹم بم سے پہلے ہم صرف ایک محاذ پر لڑ رہے تھے ہم نے یہ حصار دشمن کو سرحدوں سے دور رکھنے کے لیے کھڑا کیا تھا مگر ہم اتنا بڑاکارنامہ کرنے کے باوجود دنیا میں اپنا ایک وقار نا بنا پائے ۔ تبھی تو آج ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم عالمی محاذ پر لڑ رہے ہیں اور اس سے کہیں بڑا محاذ ہمارے ملک کے اندر برپا ہےجس کے خلاف ہم برسوں سے لڑ رہے ہیں ، جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ہم ا س کا کیا حل نکالیں ؟ہم اس سوچ کو لےکر پریشان ہیں۔ہمارے ہزاروں شہری اور محافظ اس دھرتی کی خاطر اپنا تن ، من اور دھن لُٹا چکے ہیں۔ہم نے جس منزل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس خواب کی تعبیر کی تھی وہ خواب تو شرمندہِ تعبیر ہو گیا مگر ہم منزل پانے میں ناکام ہوگئے۔
اس مقصد کےلیے کام کرنے والوں کے گلے شکوہ بھی ہمارے سامنے ہیں وہ اس قوم سے تو پیار کرتے ہیں مگر حکمرانوں کے سلوک سے نالاں ہیں۔ محسنِ پاکستان کو لےلیجیے وہ کہتے ہیں:”جتنا میں اس قوم کے لیے کام کر کے پچھتایا ہوں، اتنا زندگی میں کسی کام پر نہیں پچھتایا۔ اس سے بہتر تھا کہ میں بیرون ملک کسی یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے اپنی زندگی گزار دیتا”۔ڈاکٹر عبدالقدیر یہ بھی کہتے ہیں:”میرے پاس بہت سے منصوبے ہیں لیکن اب ہم نے قسم کھائی ہے کہ اس ملک کے لیے کچھ نہیں کریں گے”۔ڈاکٹر اقبال واہلہ جنہوں نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کا ڈیزائن تیار کیا تھا ۔ جو اُس وقت پاکستان میں واحد سڑکچرل انجنیئرتھے اُن کے شکوے بھی عوام کے سامنے ہیں۔وہ بھی بیرونِ ملک چلے گئے ۔وہ ملک کے لیے کام کرنا چاہتے تھے مگر یہ حکمرانوں کو اچھا نہیں لگتا تھا اس لیے اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔
حکمرانوں سے تنگ کر مالیوں کوگلشن چھوڑنا پڑا۔ہماری قوم میں بہت سی بُرائیاں ہیں مگر ان سب باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک واضح بُرائی جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم احسان فراموش قوم ہیں ، ہم اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتے جس کے باعث وہ لوگ جو ہمارا فخر ہیں اُن کو اپنی زندگی کے ایام کسمپرسی کی حالت میں گزارنا پڑتے ہیں اور لٹیرے تخت نشین ہیں۔ یہ داغ داغ اُجالا ، یہ شب گزیدہ سحر کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں یہ وہ سحر تو نہیں کہ جس کی خاطر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نا کہیں