تحریر :۔ ڈاکٹر تصور حسین مرزا پاکستان میں دنیا بھر کی طرح تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ، یہ عام لوگوں سے لیکر حکمران طبقہ تک سب کے لئے بڑی تشویش کی بات ہے۔ اس سے قبل کہ میں پاکستان کے حالات پر کچھ کہوں ۔ پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ روز تازہ ترین ریسرچ پر مبنی ‘سرجن جنرلز رپورٹ’ کے نتائج پیش کرنے کے لیے صحت کے شعبے سے منسلک تمام اعلیٰ امریکی عہدیدار وائٹ ہاؤس میں موجود تھے۔ امریکی حکومت کی طرف سے اس نوعیت کی ایک رپورٹ پچاس برس پہلے پیش کی گئی تھی۔ سن 1964ء میں تمباکو نوشی کے نقصانات پر پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سگریٹ نوشی سے پھیپھڑوں کا کینسر ہو سکتا ہے۔
امریکا میں بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے ادارے (سی ڈی سی) کے ڈائریکٹر تھامس فریڈن کہتے ہیں کہ تمباکو نوشی امریکا میں قبل از وقت موت کا سبب بننے والی سب سے بڑی بیماری ہے۔ ان کے مطابق آج بھی نصف ملین امریکیوں کی موت کا سبب تمباکو نوشی بنتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمباکو نوشی اس سے بھی بدتر ہے،جتنا ہم اسے پہلے خیال کرتے تھے۔ اس تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق کثرت سے تمباکو نوشی ذیابیطس کے علاوہ تیرہ اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے لیکن اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، ان میں دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
امریکا میں قائم مقام سرجن جنرل بورس لوشنیک کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا آج کے دورِ جدید میں سگریٹ ہماری سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ ڈاکٹر لوشنیک کہتے ہیں،”سگریٹ بنانے کا طریقہ اور اس کے اندر کے کیمیکل وقت کے ساتھ کافی حد تک بدل گئے ہیں۔ کچھ کیمکل ایسے بھی ہیں جو پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ تیز کرتے ہیں۔” امریکی حکومت نے سن 2020 تک تمباکو نوشی کرنے والوں کی شرح میں 12 فیصد تک کمی کا ہدف قائم کر رکھا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق اسے پورا کرنا مشکل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سگریٹ پینے والوں میں نظر کے کمزور ہونے یا اندھے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں سگریٹ نوشی کے اثرات سے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی کٹے ہونٹ، حمل کے دوران پیچیدگیوں کا پیدا ہونا، جوڑوں کا درد اور جسم کے دفاعی صلاحیت میں کمی ہوجاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر تمباکو نوشی کی شرح کم نہیں ہوئی تو امریکا میں ہر 13بچوں میں سے ایک بچہ آگے چل کر اس سے جڑی کسی بیماری کی وجہ سے جان گنوا دے گا۔
Shisha Drinking
رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ نوجوانوں میں تمباکو کے استعمال کا طریقہ ء کار تبدیل ہو رہا ہے۔ تمباکو نوشی کرنے والے بہت سے لوگ زیادہ نوٹین والے ای سگریٹ، مختلف ذائقوں والے سگار اور شیشہ پینے لگے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ایک دوسری امریکی تحقیق کے مطابق دنیا میں آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں سگریٹ نوشوں کی تعداد 72 کروڑ سے بڑھ کر تقریبا 97 کروڑ ہو گئی ہے۔
تمباکو کا سب سے عام استعمال سگریٹ میں ہوتا ہے، اس کے علاوہ چبانے کے لیے، نسوار اور اس کے عرق کو بھی ہلکے نشہ آور مادے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں یہ عرصہ دراز تک سب سے عام اور سستا ترین ہلکا نشہ آور ذریعہ رہا ہے جو کہ ادویات میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن یورپ کے باسیوں کی شمالی امریکہ میں آمد کے بعد، تمباکو کی پیداوار اور برآمد کو مرکزی صنعت کی حیثیت مل گئی اور اس پر وسیع پیمانے پر ہونے والی تحقیق کے بعد بے شمار ادویات میں اس کا استعمال کیا جانے لگا۔ یورپی اقوام نے ہی اسے امریکہ سے باہر باقی دنیا میں متعارف کروایا۔ ایک خیال یہ ہے کہ تمباکو پر تحقیق اور اس کے وسیع پیمانے پر صنعت کی شکل اختیار کرنے کی وجہ سے اوائل ادوار میں امریکہ کی معیشت کو سہارا ملا۔ بعد ازاں زرعی پیداوار کی مناسبت سے امریکی معیشت میں کپاس کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گئی۔ امریکی خانہ جنگی کے بعد عام عوام میں اس کی ضرورت میں اضافہ ہوا اور آسان تر شرائط پر میسر مزدوروں کی وجہ سے سگریٹ کی صنعت نے خوب ترقی کی۔ چونکہ سگریٹ ایک جدید اور تمباکو کا سہل ترین زریعہ تھا، اور اس کی مقبولیت میں اضافے کے سبب تمباکو کمپنیاں وجود میں آئیں اور اس صنعت نے امریکہ میں معیشت کو سہارا دیا اور ساتھ ہی چند ہی دہائیوں میں پوری دنیا کی معیشت پر حاوی ہو گئیں۔ لیکن بعد ازاں بیسویں صدی میں جب سائنسی تحقیق سے تمباکو کے انسانی صحت پر مضر اثرات کا انکشاف ہوا تو تمباکو کی صنعت کا دنیا کی معیشت پر اثر کم ہونا شروع ہو گیا اور دوسری زرعی اجناس جیسے کپاس، گندم اور مکئی وغیرہ نے تمباکو کی جگہ لے لی۔
تمباکو کی کئی اقسام ہیں، جو کہ درجہ بندی میں”نکوٹینا” خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ انگریزی کا لفظ Nicotina یا Nicotine جین نکوٹ کے اعزاز میں رکھا گیا تھا جو کہ پرتگال میں فرانسیسی سفیر کے عہدے پر تعینات تھے۔ انہوں نے ہی پہلی بار 1559ء میں تمباکو کو عدالت کے روبرو ایک دوا کے طور پر متعارف کروایا تھا۔[2] چونکہ نکوٹین کی زیادہ تر خصوصیات نشہ آور ہیں، اسی وجہ سے تمباکو کے استعمال کنندہ شخص میں جسمانی برداشت اور کیمیائی انحصار متاثر ہو سکتا ہے۔ نکوٹین کی نشہ آور خصوصیات پر کسی شخص کے انحصار کو تمباکو کے استعمال، دورانیے، مقدار، جذب ہونے کی رفتار اور تمباکو کی قسم میں نکوٹین کی مقدار کے حساب سے ناپا جاتا ہے۔ اسی حساب سے کسی شخص میں نکوٹین کی مقدار، اس کے نکوٹین پر انحصار اور عادت کو بھی ماپا جا سکتا ہے۔[3][4] ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب دس کروڑ افراد تمباکو نوشی کی عادت میں مبتلا ہویں اور بالغ انسانوں کی آبادی کا 1/3 حصہ اس عادت میں مبتلا ہے۔[5] اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی تیزی سے دنیا میں انسانی اموات کی وجہ بنتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے ہر سال دنیا میں تقریبا چون لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ اس کا تدارک ممکن ہے۔ [6] عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کا ماننا ہے کہ تمباکو نوشی اس وقت دنیا کی واحد وجہ ہلاکت ہے جس کا باآسانی تدارک کیا جا سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ہی مطاق ترقی یافتہ ممالک میں تمباکو نوشی کی شرح میں پچھلی چند دہائیوں سے کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن وہیں ترقی پزیر ممالک میں تمباکو نوشی کی شرح میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا ہے۔
Tobacco Agricultural
تمباکو دوسری زرعی اجناس کی طرح ہی پیدا کیا جاتا ہے۔ بیج کو گہرا اور بطور نرسری بویا جاتا ہے تاکہ اس پر موسمی اثرات اور کیڑے اثرانداز نہ ہو سکیں اور اس کے بعد تمباکو کے پودوں کو کھیتوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ تمباکو ایک سالانہ فصل ہے جو کہ میکانکی طریقہ یا ہاتھوں کے زریعے بویا جاتا ہے۔ تمباکو کی فصل تیار ہونے کے بعد اس کے پودوں کو سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جس کے دوران اس میں کئی کیمیائی عمل وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ سوکھنے کے بعد تمباکو کے پودوں کو بھٹی میں پکایا جاتا ہے اور اس کی درجہ بندی کر کے محفوظ کر دیا جاتا ہے اور اسے سگریٹ، نسوار، پان، وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بطور دوا تمباکو کے ہرے یا سوکھے دونوں پتے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تمباکو نوشی کے مضر اثرات وہ لوگ جو حالات سے آگہی رکھتے ہیں، اُن میں روز بروز تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے بارے میں شعور بڑھ رہا ہے کہ تمباکو نوشی نہ صرف اُس شخص کے لیے جو اِس عادت کا شکار ہے بلکہ اُن افراد کے لیے بھی نقصان دہ ہے جو اُس کے آس پاس رہتے ہیں، جسے سیکنڈ ہینڈ سموکنگ کہتے ہیں۔ یعنی، آپ خود تو سگریٹ نہیں پی رہے ہوتے لیکن دوسروں کی سگریٹ کا دھواں آپ کے پھیپھڑوں کو اور آپ کے نظامِ صحت کو بھی انتہائی نقصان پہنچاتا ہے جتنا خود سگریٹ پینے والوں کو۔ یہی وجہ ہیکہ امریکہ میں روزبروز اِس بارے میں پابندیاں بڑھ رہی ہیں کہ ایسی جگہوں پر لوگ سگریٹ نہ پئیں جہاں پر دوسرے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔امریکہ کے وفاقی قانون لوگوں کو سرکاری عمارتوں میں تمباکو نوشی سے روکتے ہیں اور خود ‘وائس آف امریکہ’ کے آفس سمیت سگریٹ پینے والوں کو عمارت سے باہر ایک خاص فاصلے تک سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بہت سی ریاستیں ایک عشرہ پہلے تک تمباکو نوشی کے خلاف منظور ہونے والے اِسی وفاقی قانون پر نہ صرف یہ کہ عمل کر رہی ہیں بلکہ کچھ ریاستوں نے اور بھی زیادہ سخت ضوابط نافذ کیے ہیں۔ایسے اسپتالوں اور کمپنیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو تمباکو نوشی کرنے والوں کو ملازم نہیں رکھتیں۔
ریاست ٹینسی کے میموریل اسپتال میں اب ملازمت کے خواہش مند افراد کا باقاعدہ لیبیاریٹری ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اگر اِس ٹیسٹ میں نکوٹین کی نشاندہی ہوجائے تو اُس کا مطلب ہے کہ ملازمت سے انکار کردیا جاتا ہے۔ طبی ماہرین ایک طویل عرصے سے لوگوں کو تمباکو نوشی ترک کرنے کے بارے میں بتا رہے ہیں، لیکن اگر امریکہ کی طرح دنیا بھر میں سماجی طور پر بھی سگریٹ نوشی کو روکا جائے تو یقینی طور پر سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوگی عالمی ادارہ? صحت کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی دنیا بھر میں موت کا سبب بننے والی آٹھ اہم وجوہات میں سے چھ میں سب سے زیادہ خطرے کی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ عالمی ادارہ? صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر سال تمباکو نوشی کرنے والے کم از کم 50لاکھ افراد پھیپھڑوں کے سرطان، دل کے امراض اور دوسری وجوہات کی بنا پر انتقال کرجاتے ہیں۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا، تو سنہ 2030 میں تمباکو نوشی سے منسلک وجوہات کی بنا پر مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 80لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ہم میں سے کوئی بھی اِن اعداد و شمار کا حصہ ہو سکتا ہے، کیونکہ اپنے گھر سے آغاز کیا جائے۔ اپنے بچوں کو شروع سے ہی تمباکو نوشی کے خطرات کے بارے میں بتائیے اورا ِس بات کی خبر رکھیئے کہ کہیں وہ چھپے چوری سگریٹ تو نہیں پیتے۔ بچوں کو روکنے کا سب سے بڑا طریقہ یہ ہے کہ بڑے اُن کے سامنے سگریٹ نہ پئیں۔
جہاں تک اسلامی جموریہ پاکستان میں منشیات بلخصوص” تمباکو نوشی ” کا رجحان بڑھنے کی بات ہے ۔ اس سلسلے میں قانون تو موجود ہے مگر افسوس بد قسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، حالانکہ پاکستان کے قانون کے مطابق کم عمر افراد یعنی ” نابالغ” بچوں کو دکاندار سگریٹ فرخت نہیں کر سکتے مگر افسوس چند سکوں کی خاطر یہ قانون محض قانون کی کتاب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
Prevention
کسی بھی چیز سے بچاؤ یا پرہیز کے لئے ضروری ہے وہ عوامل بیان کئے جائیں جن کی وجہ سے وہ چیز پھیل رہی ہے ۔ میرا مطلب ہے پاکستان میں تمباکو نوشی کا رجحان بڑھنے کی چند ایک وجوہات یہ ہیں نمبر ایک :۔ تمباکو نوشی کی تباہ کاریوں سے آگائی نہ ہونا۔ نمبر 2 :۔ جہالت کی وجہ سے والدین کا بچوں کی موجودگی میں تمباکو نوشی کرنا.نمبر 3 ۔ پبلک مقامات میں تمباکو نوش افراد کا تمباکو نوشی کرنا۔ نمبر4 سلیبس میں تمباکو نوشی کے مضراثرات پر مضامین نہ ہونا ۔نمبر 5 ۔غربت ، جہالت اور افلاس سے چھٹکارہ کے لئے عارضی سکون کے لئے تمباکو نوشی کرنا۔نمبر 6 احساس کمتری کے شکار افراد جو اپنے آپ کو اعلیٰ سوسائٹی کا فرد شمار کروانے کے لئے تمباکو نوشی پر اترتے ہیں ۔نمبر6 وہ غریب بچے جو امیر گھروں میں کام کرتے ہیں اور امیر لوگ تمباکو نوشی کرتے ہوں، نمبر 7 منشیات فروشوں کے بچے تمباکونوشی کی طرف مائل ہوتے ہیں ،نمبر 8 ایسے پڑھے لکھے نوجوان جو بے روزگاری سے تنگ آکر ذہنی سکون کی خاطر تمباکو نوشی شروع کر دیتے ہیں ، نمبر 9 ایسے گھرانے جہاں معمولی معمولی بات پر لڑائی جھگڑا ہاتا ہے وہاں ڈپریشن اور ٹینشن کم کرنے کے لئے لڑکے اور لڑکیاں منشیات اور تمباکو نوشی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔نمبر 10 کچھ لوگ تمباکو نوشی محض اس لئے شروع کردیتے ہیں کہ قبض، بواسیر اور خاص لمحات کو پُر کیف اور لمبا بنانے کے لئے تمباکو اور افیونopium کے استعمال کے عادی بن جاتے ہیں۔
منشیات یا تمباکو نوشی ایک قومی مسلئہ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ یہ ایک ایسا میٹھا زہر ہے جس نے گھروں کے گھر تباہ و برباد کر دئے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ سلیبس میں ایسے مضامین کو شامل کیا جائے جس سے آنے والی نسلیں منشیات کو دشمن تصور کرتے ہوئے تمباکو نوشی سے لا تعلقی اختیار کریں، پاکستان نے جو قانون پاس کیا ہوا ہے اس پر سختی سے عمل در آمد کروایا جائے تا کہ وہ معصوم بچے جن کے ہاتھ میں پنسل اور کاپی کی جگہ سگریٹ اور ماچس تھمانے والوں کو ” جیل کا خسوصی مہمان ” بنایا جائے، بحثیت پاکستانی قوم تمباکو نوشی کوپھیلنے اور پھولنے سے روکنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔