تحریر : ماجد امجد ثمر یہ بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ تمباکو کا استعمال خواہ وہ سگریٹ ،سگار،شیشہ ،حقہ،نسوار یا پان کی شکل میں ہو انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔دنیا بھر میں تمباکو کا سب سے ذیادہ استعمال سگریٹ نوشی کی صورت میں نظر آتا ہے۔سگریٹ نوشی جو خصوصا’ آج کی نوجوان نسل کے لئے ایک جان لیوا فیشن کا روپ اختیار کر چکی ہے۔مختلف اسٹائل بنا کر سگریٹ پینا اور رومانوی اندازوں میں منہ سے دھواں نکالنا تو صرف نابالغوں ہی کی نہیں بلکہ بالغوں کی محفل میں بھی عام نظر آتا ہے۔آج کے دور میں تو نابالغوں لے لئے بھی اس نشے کا حصول اتنا آسان ہو گیا ہے کہ وہ بے خوف و خطر کسی بھی تمباکو پوائنٹ سے اسے باآسانی خرید سکتے ہیں۔اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ کھلے عام سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے ہیں خاص طور پر نئے نئے کالج جانے والے سٹوڈنٹس تو کثرت سے اس لت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔اور کیسا عجب زمانہ آگیا ہے کہ آج سگریٹ نہ پینے والا انسان سموکرز کی محفل میں خود کو احساس کمتری کا شکار سمجھنے لگتاہے
یعنی وہ اس برائی سے اپنا دامن بچا کر بھی شرمندگی محسوس کرتاہے۔اور سگریٹ پینے والوں کا ایک مضائحکہ حیض عمل یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب وہ کسی ٹینشن میں مبتلا ہو تے ہیں تو دے سگریٹ پہ سگریٹ پھونکے جا رہے ہوتے ہیں۔شائدسگریٹ سے اٹھتے دھویں میں وہ اپنے مسائل کا حل تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ان کے نزدیک شاید سگریٹ ایک سلوشن پرووائیڈر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن در حقیقت سگریٹ انسان کو تو ختم کر سکتا ہے لیکن انسان کے مسائل کو حل کرنے یا ان کا خاتمہ کرنے کی کسی طور بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔بلکہ وہ اس کا کثرت سے استعمال کرتے ہوئے اور بہت سے طبی مسائل کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ وہ ایک بڑا خوبصورت محاورہ ہے کہ ” سگریٹ نوشی ایک بہترین راستہ ہے
لیکن خودکشی کرنے کا۔”جس طرح آج کے دور میں ایک مہنگا موبائل فون رکھنے والا شخص کسی محفل میں اپنے اس موبائل کی نمائش کئے بغیر نہیں رہتااسی طرح ہی ایک اچھے برانڈ کا سگریٹ پینے والا اپنے سگریٹ یا اس کی ڈبیہ کی شو مارے بغیر نہیں رہتا۔اگر جائز طریقے سے حلال کمائی کمانے والے شخص سے کہا جائے کہ وہ صرف اپنے ایک سو روپے کے نوٹ کو آگ لگادے تو وہ شائد ایسا ہرگز نہیں کرے گا یہ پھر کرتے سو بار سوچے گا لیکن وہی شخص اگر سگریٹ نوش ہو تو وہ سگریٹ کی ڈبیہ خرید کر اپنی اس کمائی کو اپنے ہی ہاتھوںبخوشی دھویں میں اڑا دیتا ہے۔ تمباکو نوشی کی روک تھام کاعالمی دن ہر سال 31 مئی کو تمام دنیا میں منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد تمباکو نوشی سے بچنے اور انسانی صحت پر اس کے مضر اثرات کی طرف آگہی دلاناہے۔
Who
عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اس دن کو منانے کا آغاز 1987 ء سے کیا۔ایک مستند رپورٹ کے مطابق تمام دنیا میں ہر سال 60 لاکھ اور پاکستان میں ایک لاکھ لوگ اس تمباکو نوشی کی وجہ سے زندگی کھو بیٹھتے ہیں۔ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں40%مرد حضرات اور 8%خواتین سگریٹ نوشی کی مستقل عادی ہیں۔ویسے تو تمباکو نوشی جسم کے کسی بھی حصے پر کینسر کی وجہ بن سکتی ہے تاہم زیادہ تر یہ دل ،جگر،پھیپھڑوں اور گردوں کو انتہائی متاثر کرتی ہے۔تمباکو نوشی کا چونکہ سب سے ذیادہ استعمال سگریٹ کی صورت میں ہی ہوتاہے لہذا اگر صرف اس کی بات کریں تو جب انسان سگریٹ پیتا ہے تو سگریٹ کا دھواں ہماری سانس کی نالیوں سے ہوتا ہواپھیپھڑوں تک پہنچتا ہے تو اسی لمحے دھوویں میں موجود نکوٹین ہمارے خون میں شامل ہو جا تی ہے ۔جو نہ صرف پھیپھڑوں بلکہ جسم کے دیگر اعضا ء کو بھی متاثر کرنے کی بڑی وجہ بنتی ہے۔اس وقت تمام دنیا میں ساڑھے چھ کڑور لوگ پیھپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہیںاور جن لوگوں کو پیھپڑوں کا کینسر ہوتا ہے ان میں 90% کیسز کی وجہ سگریٹ نوشی ہی ہوتی ہے۔
تمباکو جس بھی صورت میں ہو اس میں یہ چند ذہریلے اجزاء ضرور پائے جاتے ہیںجو بے خوابی ،دماغی کمزوری،مرگی ،ہائی بلڈپریشر اور پھیپھڑوں کے سرطان کا باعث بنتی ہے۔اب ان کی ذرا بغور مطالعہ کریں۔ اس میں سب سے پہلا نمبرnicotine کا ہے۔1.۔نکوٹین: یہ ایک انتہائی خطرناک قسم کا زہریلا مادہ ہے جو دل ودماغ ،تنفس،اور گردوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔صرف 60ملی گرام نکوٹین ایک جوان آدمی کے سانس کے عمل کو مفلوج یا تباہ کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔2.۔ پائرڈین : یہ ہے وہ زہریلا مادہ جو در حقیقت پیھپھڑوں کے کینسر کا باعث بنتا ہے ۔3.۔ نیو پائرین : یہ ذیابطیس یا شوگر لیول کو بڑھاتا ہے ۔ 4.۔ نیو کلولین : یہ بھی ایک مہلک ذہر ہے اس کی معمولی سی مقدار کتے کو ہلاک کر دینے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔میونسپل کارپوریشن والے اسی مادے کو تو گوشت میں ملا کر آوارہ کتوں کو ہلاک کرتے ہیں۔5. : میتھائل الکوحل : یہ شوگر کے مریضوں کو مکمل او ر عام لوگوں کی عارضی طور پر بینائی کو زائل کر کے اندھا پن پیدا کرتا ہے۔
آخر میں 6. : کاربالک ایسڈ : یہ مادہ ٹانسلز اور سانس کی نالیوں میں سوزش پیدا کرتا ہے اور منہ ،حلق اور سینے کے کینسر کا باعث بنتا ہے ۔سگریٹ نوشی یوں تو تمام افراد کے لئے مضر صحت ہے لیکن ذیابطیس اگر سگریٹ نوش بھی ہوں تو انہیں بہت ہی ذیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیو نکہ حال ہی میں ایک نئی ریسرچ کے مطابق سگریٹ میں مو جود نکوٹین خون میں شکر کی سطح بلند کر دیتی ہے اور شوگر کی مقدار مستقل ذیادہ رہنے سے کئی او ر خطرناک بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ اب تو رہی سہی کسر تمباکو کے استعمال کی ایک نئی قسم شیشہ ٹیکنالوجی نے پوری کر دی ہے۔حکومت کی پابندی لگانے کے باوجود بھی کچھ شیشہ کیفے تاحال زور و شور سے چل رہے ہیں۔شیشہ جس میں سگریٹ سے بھی ذیادہ تمباکو استومال ہوتا ہے اور یہ سگریٹ سے بھی ذیادہ خطرناک شیء ہے ۔کیونکہ اس میں 36فیصد ذیادہ ‘تار’ اور 1.7 فیصد ذیادہ نکوٹین استعمال ہوتی ہے اور یوں شیشہ کا صرف ایک کش 18سیگرٹوں کے برابربن جاتا ہے۔
Shisha Smoking
لیکن آج کی ینگ نسل صرف چند سو روپے ادا کر کے ان کیفوں میں مزے لوٹتی نظر آتی ہے ۔اکثر بچے سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہی چوری اور جھوٹ کی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیںکیونکہ وہ اپنے والدین سے چھپ کر یہ کام کرتے ہیں ۔اور پھر بلا آخر جب وہ اس نشے کے مستقل عادی ہو جاتے ہیں تو جب کبھی ان کے پاس اس نشے کو خریدنے کے پیسے نہ ہوں تو وہ اس کے حصول کی خاطر چوری،ڈاکہ اور راہزنی جیسی وارداتوں میں ملو ث ہو جاتے ہیں ۔اور یوں شغل شغل میں سادہ سگریٹ پینے سے بات ہیروٰن اور دیگر منشیات تک جا پہنچتی ہے۔جس سے نہ صرف وہ اپنا تعلیمی کیئریر بلکہ مستقبل کے تما م عزائم دھوویں میںاڑا دیتے ہیں۔مختصر یہ کہ تمباکو کے ہر طرح کے استعمال سے صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ مالی ،اخلاقی اور معاشرتی برائیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو کم ازکم ہمیں اپنی موجودہ نابالغ نسل کو تو اس سے بچانے کی اشدضرورت ہے۔
نابالغوں کے لئے تو سگریٹ کا حصول ناممکن بنا دیا جائے سرکاری سطح پر بھی کمیٹیاں تشکیل دی جائیںجو اس سلسلے میں نگرانی کریں ۔جیسا کہ اگر کوئی دوکاندار کسی بچے کو سگریٹ فروخت کر رہا ہو تو اس بچے اور دکاندار دونوں کو پکڑ کر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔خاص کر اس سلسے میں پٹرولنگ پولیس سے بھی مدد لی جائے ۔متعلقہ سرکاری اداروں کی طرف سے میڈیا کے ہر چینل کوپابند کیا جائے کہ وہ بلاناغہ اپنے چینلز پر سگریٹ نوشی کے مضر اثرات کے بارے میں کمپین چلا کر عوام میں اس سے بچنے کا شعور پیدا کرے۔ امریکہ میں کئی ایسی پبلک پلیسز اور کئی ایسی کمپنیاں ہیں جہاںانہوں نے اپنے ورکرز پر سگریٹ نوشی با لکل بین کر رکھی ہے۔
اگر کوئی ایسا کرتا پکڑا جائے تو اسے کھڑے پاؤںنوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔سگریٹ نوشی کوئی ایسی بھی بیماری نہیں کہ اس سے با لکل بھی نہ جان چھڑائی جا سکے انسان خود اپنے طور بھی پراعتماد ہو کر کوشیش کر سکتا ہے اور مزید اس سلسے میں کسی سائیکالوجسٹ سے بھی مشورہ کر سکتا ہے۔کیونکہ اسی میں ہی انسانی صحت کی بقاء ہے ورنہ انسان کب تک اپنی دولت اور اپنی صحت کو دھوویں میں اڑاتا رہے گا۔