لاہور سمیت پنجاب بھر میں سموگ کی چادر نے ہر چیز کو ڈھانپ لیا۔ صبح اور شام پھیلنے والی سموگ سے حدنگاہ میں غیرمعمولی کمی ہونے لگی جبکہ سموگ کے سبب نزلہ، زکام، الرجی اور امراض چشم کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔لاہور اور گردونواح میں صبح اور شام بڑھتی ہوئی سموگ نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ فضا میں پھیلی سموگ کے سبب نزلہ، زکام الرجی اور امراض چشم کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ فضا میں شامل سلفیٹ اور بلیک کاربن انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر ہیں۔ضلعی انتظامیہ نے اس حوالے سے دفعہ 144 نافذ کر رکھی ہے جبکہ کارخانوں اور فیکٹریوں سے دھویں کے اخراج اور کھیتوں کی باقیات یا فضلہ جلانے پر بھی پابندی ہے۔ تاہم ان پابندیوں کے باوجود لاہور میں 200 مائیکرو کیوبک فی میٹر کے حساب سے سموگ پیدا ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو نتائج خوفناک ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایک ا چھی خبر یہ بھی ہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق آج سے جمعے تک جاری رہنے والے بارشوں کے سلسلے کے بعد سموگ میں خاطر خواہ کمی آ جائے گی۔ شہری و میدانی علاقوں میں آلودہ دھند اور گردوغبار کے نتیجے میں پیش آنے والے ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ عوام کوروزمرہ کی زندگی میں بھی مشکلات کا سامنا ہے نیز آنکھوں میں چبھن اور سانس لینے میں دشواری جیسی متعدد بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔لاہور میں سموگ مکمل طور پر ختم نہ ہو سکی ، صبح کے اوقات میں سموگ میں کمی اور شام میں اس کی شدت بڑھ جاتی ہے ، اس صورتحال کے پیش نظر ماہرین نے شہریوں کو احتیاط برتنے کی اپیل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری ماسک پہنیں اور آنکھیں بار بار دھوئیں۔ اب تک سموگ سے بارہ سو سے زائد افراد متاثر ہو کر مختلف ہسپتالوں میں پہنچے ہیں جنہیں آنکھوں میں سوزش ، گلے کی بیماری اور سانس لینے میں دشواری کی شکایات ہیں۔محکمہ موسمیات نے سموگ اور دھند کی لہر کئی روز تک جاری رہنے کی پیشنگوئی کی ہے اور بتایا ہے کہ نومبر اور دسمبر میں معمول سے کم بارشوں کی وجہ سے موسم گرد آلود اور دھند نما سموگ کی لپیٹ میں رہے گا،چیف میٹرولوجسٹ محکمہ موسمیات لاہور کا کہنا ہے کہ سموگ کے باعث صحت کے مسائل کا مشاہدہ پہلی دفعہ پاکستان میں ہوا ہے اس سے پہلے عموما سموگ موسم سرما میں ہوتی رہتی تھی۔
سموگ کے باعث پہلے ایک دو روز میں آنکھوں سے پانی بہنے،گلے کی خراش،جلن اور فلو کے مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔ سموگ کی ایک بڑی وجہ بارش کا نہ ہونا ہے کیونکہ بارش ہو جانے کی صورت میں گرد وغبار اور دھویں کے ذرات زمین پر آ جاتے ہیں، اسی طرح چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد کھیتوں کی صفائی کیلئے تنوں کو جلانے سے بھی بہت زیادہ دھواں اور فضائی آلودگی ہوتی ہے ، طبی ماہرین نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکلتے وقت چہرے پر ماسک استعمال کریں اور ہر گھنٹے بعد تازہ پانی سے آنکھوں کو صاف کریں۔ سموگ کی وجہ سے ناک ، کان ، گلہ اور نظام تنفس متاثرہوتے ہیں اور آنکھوں میں جلن یا خارش ہو سکتی ہے۔ بچے اور ضعیف العمر افراد اس صورتحال سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لہذا سگریٹ نوشی کرنے والے حضرات ، دمہ یا سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد دھند میں نکلنے سے پرہیز کریں اور بھاپ لیں،مشیر وزیر اعلی پنجاب برائے صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہا ہے کہ سموگ(دھند) کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔
ریسکیو 1122 اور سرکاری ہسپتالوں میں متاثرہ افراد کے علاج کیلئے مناسب انتظامات کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی کر دی گئی ہے،سموگ کے باعث سکولوں میں چھٹیوں پر غور کے بعد پنجاب حکومت نے صورتحال میںبہتری کے لئے ایک اور آپشن پر غور شروع کردیا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب کے خصوصی مشیر برائے صحت خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ پنجاب میں دھوئیں اور گردوغبار سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال برقرار رہی تو فضائی آلودگی کا باعث بننے والے کارخانوں اور بھٹیوں کو بند کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ جو صورتحال یکم اور دو نومبر کو تھی اس کی نسبت اب لاہور میں صورتحال قدرے بہتر ہے۔تاہم سموگ کا دائرہ لاہور اور گردونواح تک محدود نہیں اور یہ سفر کرتے ہوئے دیگر علاقوں تک پہنچ چکا ہے۔
دھوئیں اور گردوغبار کی لہر کا مرکز سرحد پار بھارت ہے۔سیکرٹری ماحولیات کیپٹن (ر)سیف کا کہنا ہے کہ مشرقی پنجاب میں چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد کھیت صاف کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر آگ لگائی جاتی ہے جس کی وجہ سے بہت زیادہ دھواں اور فضائی آلودگی ہوتی ہے، ہوا کا رخ مشرق سے مغرب کی جانب ہونے کی وجہ سے یہ سموگ پاکستان کے ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے،ہر سال نومبر سے فروری کے دوران دھند یا سموگ کا سیزن ہوتا ہے جو دس سے25 دن تک جاری رہتا ہے۔ اس وقت ہندوستان کے علاقوں امرتسر، انبالہ، دہلی وغیرہ میں بھی سموگ چھائی ہوئی ہے، بارش ہو جانے کی صورت میں گرد وغبار اور دھویں کے ذرات زمین پر آ جاتے ہیں ،ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 ڈاکٹررضوان نصیر کا کہنا ہے کہ دھند کی صورت میں عوام موٹر وے اور شاہراہوں پر سفر سے اجتناب کریں اور رات میں حد نظر کم ہونے کی صورت میں بھی گاڑی کی تمام لائٹس آن کریں اور سڑک کے درمیان کھڑے ہونے سے اجتناب کریں تاکہ حادثات سے بچا جاسکے۔
محکمہ تحفظ ماحولیا ت نے ٹریفک پولیس ڈیپارٹمنٹ کو سموگ کے معاملے سے نمٹنے کیلئے فوری طور پر خصوصی اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کیں تاکہ موجودہ موسمیاتی صورتحال میں ٹریفک جام ہونے سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے اور ٹریفک کے بہائو کو ان موسمیاتی صورتحال میں ہر ممکن روانی کو یقینی بنایا جائے، کثافتیں خصوصاً گیسیں سلفر ڈائی آکسائیڈ ،نائٹروجن آکسائیڈ و کاربن مونو آکسائیڈ وغیرہ فضاء میں ایک جگہ اکٹھی نہ ہوں اس سلسلہ میں انہوں نے تمام ضلعی آفیسرز ماحولیات کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ تمام فضائی آلودگی کا باعث بننے والے کارخانوں پر کڑی نظر رکھیں اور کسی بھی کارخانے کو غیر معیاری ایندھن استعمال نہ کرنے دیں اور اس کے علاوہ کوئی بھی کارخانہ ویٹ سکربر و آلودگی کنٹرول کرنے والے آلات کے استعمال کو یقینی بنائے ۔لاہور سمیت پنجاب کے میدانی علاقے سموگ کی لپیٹ میں ہیں، ہر طرف چھائے دھوئیں کے بادلوں نے ہر چیز کو چھپا رکھا ہے۔
حد نگاہ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو بھی شدید مشکلات کا سامان ہے۔دید دھند کے باعث موٹر وے کو مختلف مقامات پر بند کیا گیا ہے تاہم موٹر وے حکام کے مطابق گزشتہ دنوں کے مقابلے میںآج شدت کچھ کم ہے۔ سموگ میں اضافہ کا خدشہ پیدا ہوا تو چیف منسٹرمانیٹرنگ سیل نے سکول ایجوکیشن کو انتظامات کرنے کی ہدایت کردی، مراسلے میں صوبہ بھر کے سی ای اوز کو فیس ماسک تقسیم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ سائیکل یا موٹرسائیکل پر سکول آنے والے بچے ماسک لازمی پہنیں، فوری طورپر سکول کے بچوں میں فیس ماسک تقسیم کیے جائیں۔ اساتذہ اور والدین سموگ یا گردوغبار کی صورت میں بچوں کو ماسک لازمی استعمال کرائیں۔ بچوں میں فیس ماسک تقسیم کرکے رپورٹ فوری طور پر حکومت کو بھجوائی جائے۔