کراچی (جیوڈیسک) محکمہ کسٹمز کے ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن ونگ نے ملک بھر میں اسمگل شدہ اشیا کی فروخت کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور اس حوالے سے کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں مختلف دکانوں اور گوداموں پر چھاپے مار کر کروڑوں روپے مالیت کا اسمگل شدہ سامان ضبط کیا گیا ہے۔
انڈسٹری ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ نے اسمگلنگ کے باعث قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کو ختم کرنے کیلیے اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کے احکامات دیے تھے تاکہ ایف بی آر غیر قانونی سرگرمیوں بشمول انڈر انوائسنگ اور اسمگلنگ کی روک تھام کرسکے۔ اس ضمن میں ٹائر، سگریٹ، چائے کی پتی، پٹرول، ڈیزل کی اسمگلنگ سے حکومت کو 50 ارب روپے کا سالانہ نقصان پہنچ رہا ہے۔
ان اشیا میں 15 ارب روپے کے صرف ٹائر اسمگل ہوتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر کسٹمز انٹیلی جنس لاہور مکرم جاہ نے حال ہی میں لاہور کی سبزی منڈی کے علاقے میں چھاپوں کے احکامات دیے۔ کسٹم کی ٹیم جس کی قیادت سپرنٹنڈنٹ رئوف فاروقی نے کی چھاپے کے دوران گوداموں سے 912 ایل ای ڈیز اور 180 ٹائر برآمد کیے اور ان اسمگل شدہ اشیا کو تحویل میں لیا۔
کسٹمز ذرائع کے مطابق کسٹمز ایکٹ 1969 کے تحت اسمگلنگ سے نمٹنے کا پورا طریقہ کار موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایکٹ کی دفعہ 156 کے تحت اسمگلنگ کا سامان پاکستان لانا اور باہر لے جانا دونوں جرم ہیں۔ اسی طرح اسمگلنگ کے کام میں کسی طرح کی معاونت یا پھر اس کو رکھنا، لے جانا اور کسی طرح اس میں شامل ہونا بھی اس ایکٹ کے تحت جرم ہے۔ ذرائع نے کہا کہ حکومتی سطح پر سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے ایسی سرگرمیوں کی روک تھام میں مشکلات درپیش رہی ہیں۔
اس کے علاوہ حکومتی سطح پر امن و امان خراب ہونے کا خوف بھی رہتا ہے کہ اگر مختلف مارکیٹوں میں چھاپے مارے جائیں گے تو تاجروں میں بے چینی پھیلی گی اور وہ ہڑتال اور مظاہروں کے ذریعے انتظامیہ کیلیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اسٹاف کی کمی سے بھی اسمگلنگ کی روک تھام میں دشواری کا باعث ہے۔
غیرقانونی کام میں بڑے پیمانے پر کالا دھن شامل ہونے سے بھی اس کی روک تھام میں مشکلات درپیش رہتی ہیں۔ ذرائع نے کہا کہ ان تمام چیلنجز کے باوجود ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (کسٹمز) اور ایف بی آر کے دیگر اعلیٰ حکام اسمگلنگ اور دیگر خلاف ضابطہ کاموں کے خلاف کاروائیوں کیلیے کمربستہ ہیں۔