ملکی عوام روزآنہ صبح نئے اخبارات پڑھتے ہیں مگر جب تازہ اخبار انہیں دیکھنے کو ملتا ہے تو ہماری معاشرے ، ہماری عوام سے متعلق کئی خبریں ایسی ضرور پڑھنے کو ملتی ہیں جن میں ان کے آپس کے تنازعات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ تفصیلات پڑھیں تو آپ خود ششدر رہ جائیں گے کہ ہمارے آپسی تنازعات کس قدر بھیانک شکل اختیار کر چکے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اخباروں میں جو خبریں آتی ہیں اس سے کہیں زیادہ میڈیا پر تازہ خبروں کا انبار ہوتا ہے جسے دیکھ کر آپ دہل جائیں گے۔
باہمی چپقلش اور باہمی تنازعات اس قدر پھل پھول رہے ہیں کہ یہاں سانس لینا بھی دوبھر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلکی اور علاقائی نوعیت کے جھگڑے تو ہمارے معاشرے میں عام پائے جاتے ہیںلیکن جو جھگڑے ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں وہ عوام پر گہرے و منفی اثر ڈال رہے ہیں۔مسلمان آپس کے تنازعات کے سبب ایک دوسرے کو موت کی نیند سلا رہے ہیں۔ایسے میں حکومت اور انتظامیہ چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں۔ایک ایک گز اور ایک ایک بالشت زمین کو لے کر جو مار کاٹ ہوتی ہے اس کے تو تصور سے ہی کلیجہ منھ کو آتا ہے۔
کتنے ہی واقعات ایسے ہیں کہ ذرا سی زمین کے تنازعہ میں دونوں جانب سے کئی کئی جانیں ہلاک ہو جاتی ہیں۔ ایسی لڑائیوں کی ایک طویل داستان ہے جسے بیان کرنا مضمون کی طوالت کے سوا کچھ نہیں اور ویسے بھی یہاں کے باسی اب اتنے باشعور تو ہو گئے ہیں کہ مضمون کا عنوان دیکھ کر اندر کا حال سمجھ لیتے ہیں۔
ویسے تو اس طرح کے واقعات کسی بھی قوم و طبقہ کے لئے انتہائی نامناسب ہیں، لیکن مسلم ملک اور مسلم اُمہ اس طرح کے حالات سے دو چار ہوں تو اس سے زیادہ افسوسناک کوئی امر نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ہمارا مذہب اسلام ہرگز باہمی تنازعات ، ایک دوسرے کو جان سے مارنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ ان سے بچنے کے لئے پورا ایک نظام پیش کرتا ہے۔ دورِ حاضر میں مسلم اُمہ اور خاص کر پاکستانی ملت اسی طرح کے مختلف النوع مسائل سے نبردآزما ہیں۔
جس کی وجہ سے پسماندگی اور زبوں حالی نے بھی انہیں ہر طرف سے گھیرے رکھا ہے۔لڑائی جھگڑے، مار دھاڑ، قتل و غارت گری سے ملک کا نقصان تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ ملک عالمی سطح پر بدنام بھی ہوتا ہے اور اس کے دورس اثرات عوام پربھی مرتب ہوتے ہیں ۔ معاشی سطح پر بھی روز بروز کمی کا رجحان پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ملکی معیشت آج جس سمت میں ہے ہم سب کو معلوم ہے۔ ملک میں عناد اور جھگڑوں کی صورت میں ترقی کے امکانات بہت مسدود ہو جاتے ہیں۔
Terrorism
کسی معاشرے کے لوگ ہر سطح پر آپس میں دست و گریباں ہوں تو پھر وہ قومی سطح پر کارہائے نمایاں کس طرح انجام دے سکتے ہیں اور اپنی حیثیت و اہمیت کس طرح تسلیم کرا سکتے ہیں۔ ملکی عوام اگر اپنے باہمی اختلافات کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے تو وہ طبقہ کس طرح قیادت و سیادت میں کامیاب تصور کیا جا سکتا ہے بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ یہ بھی کسی ادھورے خواب سے زیادہ نہیں۔ اگر ہم ترقی چاہتے ہیں ، چاہتے ہیں کہ دنیا میں سر اٹھا کر جیئں، دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں تو ہمیں سب سے پہلے آپسی تنازعات کو ختم کرنا ہوگا، اگر ہم پُر سکون و کامیاب زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو انہیں واجبی حقوق کی ادائیگی کرنی ہوگی اور بردباری اختیار کرنی ہوگی۔
انتہائی خطرناک نوعیت کے باہمی اختلافات میں رہتے ہوئے ترقی کی منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ہمیں چاہیئے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد کا مدوا کرنا سیکھیں، تنگ نظری کو قطعی طور پر چھوڑ دیں، ہر میدان میں ساتھ ساتھ، سینہ بہ سینہ چلنے کے لئے حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ کسی کو نظر انداز نہ کریں بلکہ تمام اقسام کی قتل و غارت گری، دہشت گردی، کو چھوڑ کر صرف اپنی قومی ترقی کے بارے میں سوچیں، ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو حل کرنے کی سعی کریں۔
یہ نہایت عجیب بات ہے کہ ہم دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں مگر اپنی طرف نہیں دیکھنا چاہتے، بڑسے مسائل کی بات کرتے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے مسائل کو صَرفِ نظر کر دیتے ہیں جو اولین ترجیح کے حامل ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جو مسائل اور جو تنازعات ہمارے اپنے پیدا کئے ہوئے ہیں ان کو حل کئے بغیر ہماری ترقی کس طرح ممکن ہوگی۔ہم چاہے کتنے ہی بلند و بانگ دعوے کیوں نہ کر لیں کہ ہماری سماجی اور معاشرتی تہذیب و ثقافت قدیم اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی ہے اور معاشرے میں انسانی اقدار کا سب سے زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔
تاہم ہر نئی صبح کے ساتھ اخبارات کی شہ سُرخیاں اور ہر گھنٹے بعد ٹی وی میڈیا کی خبریں ہمیں کچھ اور ہی کہانی سناتی ہیں۔ ان خبروں کو پڑھ کر نہ صرف دل خون کے آنسو روتا ہے بلکہ اس موجودہ حالات سے دل بدگماں بھی ہوتا ہے کہ کیا یہی ہماری معاشرتی تہذیب ہے، کیا اسی کے بَل بوتے پر ہم اپنی اعلیٰ تہذیب کو پروان چڑھائیں گے۔ چند انسان نما بھیڑیئے ملک بھر میں خونِ ناحق سے وطن کی مٹی کو سُرخ کرنے کے در پہ ہیں۔ یہاں جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کرتا ہے، طاقتور کے سامنے کمزور اور بے بس انسان ہر ظلم و زیادتی و جسمانی استحصال برداشت کرنے پر لاچار و مجبور ہے۔
صرف یہی نہیں فلموں ، پرنٹ میڈیا، انٹر نیٹ و دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے دکھائے جانے والے فحش اور مار دھاڑ سے لبریز فلمیں اور کہانیاں بھی نوجوان نسل کی زندگیوں کو سبوتاژ کر رہی ہیں۔ کل چیف جسٹس صاحب نے اپنے ایک ریمارکس میں کہا کہ مَرے ہوئے لوگوں کے سروں کو فٹبال بنا کر کھیلا جا رہا ہے مگر انتظامیہ خاموش ہے۔ کیا یہی انسانیت ہے ، کیا یہی حکومتی تقاضے ہیں کہ ملک میں مار دھاڑ، افرا تفری ہو رہی ہے اور سب چین کی بانسری بجا رہے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ کچھ بھی اچھا نہیں ہے صاحبو! حالات اس نہج پر ہیں کہ اب صرف اور صرف ایکشن کا وقت ہے ورنہ ہماری اور آپ کی ترقی تو دور کی بات ہے ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
Pakistan
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نگراں حکومت امن و امان کے حوالے سے کافی سنجیدہ ہے اگر ماضی کی طرح انہیں مفاہمت کی نظر نہیں کیا گیا تو شاید حالات کروٹ بدلے، نگرانوں کے تیور دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ اس سمت میں کچھ ٹھوس اقدامات کے موڈ میں ہیں تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ نگرانوں کی یہ سرگرمی اور جوش و خروش مستقبل میں بھی قائم رہے گا یا نہیں کہیں وقت گزرنے کے ساتھ یہ سارے کا سارا معاملہ کہیں دوبارہ ٹھنڈے بستے میں تو نہیں ڈال دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عوامی اعتبار چکنا چور ہی نہیں ہوگا بلکہ اس ملک سے اعتبار اور یقین کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ترقی کی راہوں میں کوئی ایسا مقام نہیں آتا جس کو منزل کہا جا سکے اور نہ کوئی ایسا ”آج ” آتا ہے ، جسے فکر فروا سے آزاد کیا جا سکے۔ افراد ہوں، ادارے ہوں یا قومیں، بہتری کی خواہش سب کو سعی پیہم پر آمادہ رکھتی ہیں اور وہ خوش آئند مستقبل کے لئے ہمیشہ تگ و دو کرتے ہیں اگر انہیں مکمل اختیارات کے ساتھ حکمتِ عملی دی جائے۔
یہ قانونِ فطرت ہے کہ جو امروز پر مطمئن ہوگیا وہ ترقی کی دوڑ سے اور ترقی کی صَف سے نکل گیا اور اسے زمانے نے جلد ہی بھلا بھی دیا۔ اگر روشن مستقبل درکا رہے تو قدرت کے اس اٹل فیصلے کی اطاعت کرنی ہوگی جس پر چل کر ہم کامیاب و کامران ہو سکیں گے۔ اگر نہیں تو ” ایسے تو ترقی ممکن نہیں ہماری! تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی